• Sat, 05 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کنچن جنگا ایکسپریس:مسافروں کو بچانے کیلئے مسلم نوجوانوں نے ’عید‘ کی قربانی دیدی

Updated: June 19, 2024, 11:00 AM IST | Kolkata

حادثے کا شکار ہونے والی ٹرین میں پھنسے مسافروں کو جن میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے مقامی مسلم نوجوانوں نے ڈبوں سے باہر نکالا ، ان کا سامان بھی محفوظ رکھا

A scene from the Kanchanjunga Express accident. (PTI)
کنچن جنگا ایکسپریس کے حادثے کا ایک منظر۔(پی ٹی آئی )

عید الاضحی قربانی کا تہوار ہے اور اس مرتبہ دارجلنگ ضلع کے چھوٹو نرمل جوت گائوں کے مقامی مسلمانوں نے واقعی اپنی عید کی قربانی دیتے ہوئے کنچن جنگا ایکسپریس میں پھنسے سیکڑوں مسافروں کو ڈبوں سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان مسلم نوجوانوں نے نہ صرف عید کے دن یہ کارنامہ انجام دیا بلکہ وہ دن بھر ریلوے انتظامیہ کے ساتھ مدد میں پیش پیش رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سیکڑوں مسافروں کا سامان بھی محفوظ رکھا اور اسے بحفاظت پولیس کے حوالے کیا۔اس بارے میں فضل الرحمان  نامی نوجوان نے بتایا کہ ’’ہم نے صبح میں ۸؍ بجے کے قریب عید کی نماز مکمل ہی کی تھی کہ ہمیں بہت زوردار دھماکے جیسی آواز سنائی دی ۔  ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ہو نہ ہو ریلوے ٹریک پر ہی کوئی حادثہ ہوا ہے جو گائوں سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔‘‘ 
فضل الرحمان کے مطابق  نماز مکمل ہوتے ہی تمام گائوں والے  ریلوے ٹریک کی طرف دوڑے جہاں ہم نے دیکھا کہ کنچن جنگا ایکسپریس کو مال گاڑی نے پیچھے سے ٹکر ماردی ہے اور ٹرین کے کئی ڈبوں ایک دوسرے پر چڑھ گئے ہیں۔ ان ڈبوں میں پھنسے مسافروں کے چیخنے ، خواتین اور بچوں کے رونے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ یہ آوازیں سننے کے بعد میرا تو کلیجہ ہی جیسے پھٹ گیا۔ عورتوں اور بچوں کی اتنی درد انگیز پکا ر میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنی تھی۔ پھر کیا تھاہم دوڑ پڑے اور مسافروں کو ڈبوں سے باہر نکالنے لگے ۔
فضل الرحمان کے ساتھ ہی جائے حادثہ پر پہنچے محمد حکیم نے کہا کہ ٹرین کی ڈبے اوپر نیچے ہوگئے تھے اور اس کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اندر پھنسے مسافروں کی کیا حالت ہو رہی ہو گی۔ کئی لوگ ڈبوں سے باہر بھی گر گئے تھے لیکن وہ بیہوش ہو گئے تھے ، کچھ بری طرح زخمی تھے  ۔ جبکہ جو لوگ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے وہ اپنے اہل خانہ یا ساتھیوں کو باہر نکالنے کیلئے تگ و دو کررہے تھے لیکن اپنی بے بسی کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری تھے۔محمد حکیم کے مطابق ہمارے ساتھ گائوں کے دیگر لوگ بھی دوڑ پڑے تھے ۔ہم سبھی نے چھوٹے چھوٹے گروپ بناکر مسافروں کو باہر نکالنے کا کام شروع کیا۔ اس دوران سیکڑوں مسافروں کا سامان ، ان کے بیگ اور دیگر چیزیں ایک جگہ لے جاکر محفوظ رکھنا شروع کردیا تاکہ مسافروں کو نکالنے میں بھی آسانی ہو اور ان کا سامان اس افراتفری میں کھو نہ جائے۔ حکیم نے بتایا کہ حادثے کے بعد کم از کم ۴۰؍ منٹ تک نہ ریلوے کے افسران جائے حادثہ پر پہنچے تھے اور نہ مقامی پولیس پہنچی تھی۔ اس دوران ہم نے کئی مسافروں کو پانی پلایا۔ کچھ لوگوں کی مرہم پٹی بھی کی ۔ایک دیگر مسلم نوجوان وسیم احمد نے کہا کہ حادثہ بہت خطرناک تھا ۔ ہمارے دل دہل رہے تھے لیکن خدا نے ہمیں ہمت دی اور عید قرباں کے موقع پر اس نے ہم سے یہ بہت بڑا کام لے لیا۔ حالانکہ عید کا دن تھا اور قربانی کیلئے سبھی تیار تھے لیکن سبھی نے پہلے یہاں پہنچ کر لوگوں کی جان بچانے کو اہمیت دی۔ مقامی گائوں والے دوپہر کے بعد تک یہاں موجود تھے اور انتظامیہ کی مدد کررہے تھے۔ واضح رہے کہ یہ حادثہ سلی گوڑی اسٹیشن سے ۲۵؍ کلومیٹر دور ہوا اور اس کے قریب واقع نرمل جوت گائوں مسلم اکثریتی گائوں ہے۔ یہاں کی ۹۰؍ فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔

 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK