Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’نظر اُٹھا کر اپنے آس پاس دیکھیں، آپ مسلم اراکین پارلیمان کی گھٹتی ہوئی تعداد کومحسوس کریں گے‘

Updated: February 12, 2025, 4:17 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

لوک سبھا رکن کنی موزی نے اقلیتوں کیخلاف مودی سرکار کی نفرت اور انتظامیہ کے سوتیلے سلوک کا معاملہ شدت سے اٹھایا۔

DM`s Member of Parliament Kini Muzi. Photo: INN
ڈی ایم کی رُکن پارلیمان کنی موزی۔ تصویر: آئی این این

 صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر  یہ کہتے ہوئے ختم کی کہ ہندوستان ۱۴۰؍ کرور لوگوں کا ملک ہے۔ ہماری الگ الگ ریاستیں، خطے اورزبانیں ہیں۔ میں خوش ہوں کہ صدر جمہوریہ اب بھی اس ملک کے تنوع اور رنگارنگی میں یقین رکھتی ہیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ۸؍ بڑے مذاہب، سیکڑوں نسلی گروہ،۷۰۰؍ قبائل اور ۱۲۱؍زبانیں ہیں۔ ایک ملک کے طور پر ہم نے ہمیشہ اس تنوع پر فخر کیا ہے۔ہمارا اتحاد اسی کثرت میں وحدت کی علامت ہےلیکن موجودہ حکومت اس تہذہبی رنگارنگی کو ختم کرکے سب کو زبردستی ایک تہذیب میں ضم کردینےاور الگ الگ  ثقافتوں کو ختم کر دینے پر آمادہ ہے۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر کا آغاز نفاذ آئین کی  ۷۵؍ویں سالگرہ کے حوالے سے کیا۔ انہوں نے امرت بھارت کے دوران کی گئی حصولیابیوں پر فخر کااظہار کیا۔ انہوں نے حوالہ دیا کہ ہم نے حال ہی میں ہندوستان کے جمہوریہ بننے کی   ۷۵؍ ویں سالگرہ منائی لیکن اس ایوان میں  موجود ہم تمام  میں سے کوئی بھی یہ نہیں بھول سکتا کہ۲؍ سال قبل اسی ایوان کے پہلے اجلاس میں  ایوان  کے ایک مسلم رکن کو  حکمراں جماعت ایک ساتھی کی دشنام طرازی  اور فرقہ وارانہ تبصروں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔وہ سیاہ دن تھا۔ ہمارے ملک کا  انتہائی مایوس کن اور قبیح دن۔ 
 اس حکومت نے سماج کو ’’ہم اور وہ‘‘ میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔ نظر اٹھا کر اپنے آس پاس دیکھیں، آپ مسلم اراکین پارلیمان کی گھٹتی ہوئی تعداد کو محسوس کریں گے۔ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتی سماج  سے تعلق رکھنے والے افسران اور نوکر شاہوں کی تعداد میں آنے والی کمی آپ کو صاف نظر آئے گی۔  صدر جمہوریہ نے ہندوستان کی ثقافتی قومیت  پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو یک رخی ثقافت کو جواز فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔
  آپ جب ہندوستان کی تاریخ کی بات کرتے ہیں تو آپ ۳؍ ہزار ۵۰۰؍سال قبل ویدک دور سے آغاز کرتے ہیںلیکن آج ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان  میں ۵؍ ہزار۳۴۵؍ سال قبل کے لوہے کے زمانے کے آثار و قرائن ملے ہیں۔ ہمارے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے فخریہ انداز میں پوری دنیا کے سامنے اس کا  اعلان کیا۔  ہندوستان میں اس دور کے سائنسی  ثبوت ملے ہیں جن کی توثیق فلوریڈا کی ’ بیٹالیب‘ نے بھی کی  ہے کہ شیوا کلائی جو ٹوتھ کوڈی ضلع میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے،  میں اُس زمانے میں لوہا پگھلانے اور اسےاستعمال کرنےکے ثبوت موجود  ہیں۔  یہ ہندوستان میں اب تک کی سب سے قدیم دریافت  ہے۔ مرکزی حکومت نے آج تک اس دریافت پر کوئی تبصرہ تک نہیں کیا حالانکہ یہ عالمی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ جب آپ اس حقیقت کو خارج کرتے ہیں تو آپ صرف ہمیں (دراویڈین کو) خارج  نہیں کرتے بلکہ آپ اپنے آپ کو بھی عظیم  دراوِڈین ثقافت کی وراثت سے محروم کر لیتے ہیں۔   
  میں  اس ایوان کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے الفاظ  یاد دلا دوں۔ وہ کانگریس کے لیڈر تھے  جن پر اب ایسا لگتا ہے کہ آپ نے قبضہ کرلیا ہے اوراکثر ان کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ۱۹۵۰ء  میں  جب  ان کے سامنے ہندوستان کو ’’ہندوملک‘‘ بنانے کی تجویز رکھی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دیگر اقلیتیں بھی ہیں جن کا تحفظ ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ ‘‘۱۹۵۰ء میں انہوں  نے کہاتھا کہ ’’ہماراملک سیکولر ملک ہے۔ہم اپنی  سیاست کو پاکستان کے ڈھرے پر نہیں  لے جاسکتے۔ یہاں ہر مسلمان کو یہ محسوس ہونا چاہئےکہ وہ ہندوستانی شہری ہے اوراسے  بطور ہندوستانی یکساں  حقوق حاصل ہیں۔‘‘(افسوس کہ) یہ حکومت سردار ولبھ بھائی پر تو فخر کرتی ہے مگر ان کے اصولوں کو نظرانداز کردیتی ہے۔ 
  اس کے برخلاف یہ حکومت اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اس ملک کی اقلیتیں  اطمینان سے نہ رہیں۔ انہیں ہر وقت نشانے پر رکھا جاتا ہے اور یہ محسوس کرایا جاتا ہے کہ وہ یہاں کے نہیں باہرکے لوگ ہیں۔ سی اے اے، طلاق ثلاثہ بل، وقف بورڈ بل، یونیفارم سول کوڈ، ہجومی تشدد اور حکومتوں کی زیادتیاں اس بات کی کبھی نہ ختم ہونے والی مثالیں ہیں کہ کس طرح اقلیتوں کو مسلسل  دھکیلا   اور خوفزدہ کیا جارہاہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں اس  حکومت  نے کشمیر جو ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے، کی خود مختاری ختم کردی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کردیا۔اسی وقت آپ نے یو اے پی اے میں ترمیم کی جس سے آپ کو کسی فرد واحد کو دہشت گرد اوردہشت گردی کو فروغ دینےوالا قرار دیکر پابندی لگانے کا اختیار مل گیا۔ اس قانون کے تحت آپ نے سیکڑوں کشمیری سیاستدانوں اور سماجی کارکنان کو جیلوں  میں ٹھونس دیا۔ لوگوں کے شہری حقوق معطل کردیئے اور احتجاج پر پابندی لگادی گئی۔کچھ مہینوں  بعد سی اے اے لایاگیا۔ اس  کے ذریعہ  پڑوسی ملکوں کی کئی اقلیتوں کو جلد شہریت  فراہم کرنے کا نظم کیا گیا۔ قانون میں  وضاحت کی گئی ہے کہ جن مذاہب کے ماننے والوں کو شہریت ملے گی وہ عیسائی، بدھشٹ، ہندو، جین، پارسی اور سکھ  ہوں  گے۔ مسلمانوں کو جان بوجھ کر اس فہرست  سے  باہر رکھا  گیا حالانکہ کئی (پڑوسی  )ملکوں  میں  وہ بھی  اقلیت ہیں اور مظالم  ہی نہیں ، پر تشدد حملوں تک کا شکار ہیں۔ 
  اس کے علاوہ بی جےپی کے اقتدار والی کئی ریاستوں  میں  آپ  نے ’’لوجہاد‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی ۔ آپ کا جواز  ہے کہ اس ملک میں ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔ ہندوستان میں  مسلمانوں کی آبادی  ۱۴؍ فیصد  اور ہندو آبادی تقریباً ۸۰؍ فیصد ہے۔ ایسے میں  اس طرح کے فرضی بیانیے تیار کرنا آپ کی طرز سیاست ہے مگر کم از کم جن لوگوں کو انفرادی  طور پر نجی زندگی میں آزادانہ انتخاب کا حق ہے، انہیں  اس حق سے محروم تو نہ کیجئے۔ہم نے دیکھا ہے کہ بی جےپی کے اقتدار والی زیادہ تر ریاستوں  میں بھیڑ اقلیتوں پر حملے کرتی  ہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ میں صرف بھیڑ بھی نہیں کہہ سکتی کیوں  کہ کچھ ریاستوں میں انتظامیہ خود مسلمانوں  کے گھروں  اور ان کے کاروبار کی جگہوں پر بلڈوزر چلادیتی ہے۔ ہجومی تشدد جس طرح ملک میں عام ہے، اس طرح عام نہیں  ہوسکتا تھا جب تک کہ اس کیلئے حکومتی سطح پر کھلی چھوٹ کا ماحول نہ  بنا دیا جاتا   جو آپ نے فراہم کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK