لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحاد ۱۹؍ سیٹوں پر قابض، بی جےپی کے حصے میں صرف۲؍ سیٹیں آئیں۔
EPAPER
Updated: October 09, 2023, 12:07 PM IST | Agency | Srinagar/Kargil
لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحاد ۱۹؍ سیٹوں پر قابض، بی جےپی کے حصے میں صرف۲؍ سیٹیں آئیں۔
لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل – (ایل اے ایچ ڈی سی کے)کے انتخابات میں اتوار کو سامنے آنے والے نتائج میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے بازی مارلی ۔دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر ولداخ خطے میں ہونے والایہ پہلا الیکشن تھا جس میں بی جے پی کو پسپا ہونا پڑا۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحادنے ۲۶؍ سیٹوں والی کارگل پہاڑی ترقیاتی کونسل میں ۱۹؍ سیٹوں پر فتح حاصل کرلی جبکہ بی جےپی ۲؍ سیٹوں پر جیتی۔ واضح رہےکہ جموں وکشمیر سے دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے بعدجموں وکشمیر اور لداخ کی حیثیت مرکز کے زیر انتظام علاقے(یونین ٹیرٹری) کے بطور ہوگئی ہے جس کے بعد لداخ میں ہونے والا یہ پہلا الیکشن تھا جسے کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے متحدہ لڑا ۔خبر لکھےجانے تک ووٹوں کی گنتی جاری تھی لیکن اتنا طے تھا کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے اچھی خاصی سبقت حاصل کرلی تھی۔
نیشنل کانفرنس کانگریس اتحاد نے ۱۹؍نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ بی جے پی نے دواور آزاد امیدوار ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔اطلاعات کے مطابق لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کارگل کے انتخابات کے سلسلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی اتوار کی صبح شروع ہوئی تھی ۔ذرائع نے بتایا کہ سخت سیکوریٹی کے بیچ اتوار کی صبح آٹھ بجے سے ووٹ شمار ی کا عمل شروع ہوا۔سرکاری ترجمان کے مطابق سہ پہر پانچ بجے تک کانگریس نے ۷؍ ، نیشنل کانفرنس نے۶؍ ، بی جے پی نے دو اور آزاد امیدوار ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ بعد ازاں ۱۰؍ مزید نشستوں کا رزلٹ آ یا جن میں سے نیشنل کانفرنس نے ۱۱؍ سیٹیں جیتیں اورکانگریس کو ۸؍ سیٹیں ملیں۔
واضح رہے کہ لداخ کونسل کے انتخابات کیلئے پولنگ ۴؍اکتوبر کو ہوئی تھی جس میں کل۷۴۰۲۶؍ ووٹروں میں سے۷۷ء۶۱؍ فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران نیشنل کانفرنس (این سی) نے ان انتخابات کو ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو مرکز کے اقدام پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کیا تھا جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم ہو گئی تھی ۔عمر عبداللہ نے اس جیت پر کہا کہ ’’یہ بی جے پی کی سیاست کا زبردست رد ہے جس نے جموں و کشمیر کو تقسیم کیا اور ہماری آئینی طور پر ضمانت شدہ حیثیت کو ختم کر دیا۔ کارگل کے لوگوں نے بتادیا ہےکہ وہ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کی حمایت یا اس سے اتفاق نہیں کرتے۔‘‘
کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے پارٹی کی کارکردگی کا سہرا راہل گاندھی کو دیا۔ جے رام رمیش نے کہا، ’’یہ (نتائج) راہل گاندھی کا گزشتہ ماہ لداخ میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ جاری رکھنے کا براہ راست اثر ہے۔‘‘اگرچہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس انتخابی اتحاد تھا لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے کی جسے انہوں نے ’دوستانہ مقابلہ ‘ قراردیا تھا ۔ درحقیقت، یہ ’انڈیا‘ اتحاد کے قیام کے بعدپہلا الیکشن تھا جسےمتحدہ طورپر لڑا گیا ۔ واضح رہےکہ نیشنل کانفرنس بھی’ انڈیا ‘ اتحاد کا حصہ ہے۔
تاہم ’دوستانہ مقابلے‘کی وجہ سے اتحاد کو کارگل کے زنسکار علاقے میں ایک سیٹ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ بی جے پی نے بدھ اکثریتی سٹاکچے کھنگرال حلقہ میں ۲۵۶۵؍ ووٹوں کے ساتھ۱۷۷؍ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کی جیتنے والی امیدوار پدما دورجے نے۱۰۰۷؍ ووٹ حاصل کیے، اس کے بعد کانگریس کے سید حسن کو۸۳۰؍ ووٹ اور این سی کے غلام حسین کو۴۷۹؍ ووٹ ملے۔ این سی-کانگریس اتحاد کو بصورت دیگر۱۳۰۹؍ ووٹ ملے۔
بی جے پی نے تین بدھ اکثریتی سیٹوں میں سے دو سیٹوں چا،سٹاکچے کھنگرال اور پادوم جیتی ہیں ۔ پادوم کو این سی نے جیتا ۔ بی جے پی نے ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے مقابلے میں بی جےپی کو ایک سیٹ زیادہ ملی ۔ تاہم، بی جے پی اس نتیجے کو دیکھ کر یقیناً خوش نہیں ہوگی کیونکہ اس علاقے پر ۲۰۱۹ء سے مرکز کی براہ راست حکومت ہےاور بی جے پی کے دوسینئر لیڈرمیناکشی لیکھی اورترون چگ نے انتخابی مہم چلائی تھی۔