• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کرناٹک حکومت جنتر منتر پر، مرکز کیخلاف احتجاج

Updated: February 08, 2024, 10:23 AM IST | New Delhi

وزیر اعلیٰ سدا رمیا،نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کماراور۱۰۰؍ سے زائد اراکین اسمبلی شریک ،فنڈ اوربقایا کی ادائیگی میںمرکز پرسوتیلا سلوک کا الزام

Karnataka Chief Minister and members of the government during the protest at Jantar Mantar
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ اور حکومت کے اراکین جنتر منتر پر احتجاج کے دوران

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے بدھ کو جنتر منتر پر کرناٹک کانگریس کے ’دہلی چلو‘ احتجاج کی قیادت کی جس میں مرکزی حکومت کی ٹیکس منتقلی کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔سدارامیا نے کہا کہ کانگریس پارٹی کا بنیادی مقصد ریاست اور کنڑ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور امید ظاہر کی کہ مرکزی حکومت ان کے احتجاج پر توجہ دے گی۔کرناٹک حکومت نے مرکز پرفنڈ کی فراہمی اورٹیکس بقایا کی ادائیگی میںریاست کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنے کا الزام لگایا ہے۔
 انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مرکز کو ریاست کی طرف سے دئیے جانے والے ہر۱۰۰؍ روپے کے بدلے  صرف۱۳؍ روپے واپس ملتے ہیں۔ انہوں نے مرکز پر ریاست کیلئے فنڈ مختص کرنے سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار کو ظاہر نہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ سدارامیا نے الزام لگایا کہ کرناٹک میں مرکز کی شراکت میں نمایاں کمی آئی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مرکز نے ابھی تک کرناٹک میں سیلاب متاثرین اور کسانوں کے مسائل کے لئے فنڈ جاری نہیں کیا ہے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگرچہ مرکزی کمیٹی نے ریاست کا دورہ کیا لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کرناٹک کانگریس کے صدر شیوکمار نے الزام لگایا کہ ریاست کو صرف۱۳؍ فیصد مل رہا ہے جو اسے ملنا چاہئے تھا۔ انہوں نے مرکز سے کرناٹک کیلئے گفٹ سٹیز کا بھی مطالبہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، ہمیں جو بھی فیصد ملنا چاہئے، ہمیں اس کا۱۳؍ فیصد ہی مل رہا ہے۔ 
 نائب وزیر اعلیٰ نے کہاکہ انہوں نے گجرات کو ایک گفٹ سٹی دی ہے۔ ہمیں بھی گفٹ سٹی دیاجائے۔تمل ناڈو، تلنگانہ اور مہاراشٹر کو موقع دیاجائے۔ ہندوستان ایک متحد ملک ہے۔‘‘
 کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں انصاف ملنے والا ہے۔ یہاں تک کہ وہ (مرکزی حکومت) بھی جانتے ہیں کہ ناانصافی ہوئی ہے۔ ہم کرناٹک کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کرناٹک کے وزیر کے ایچ منیاپا نے کہا کہ مرکزی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود کرناٹک میں خشک سالی کی صورتحال سے نمٹنےکیلئے ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے کرناٹک میں خشک سالی کی صورتحال کا مطالعہ کرنےکیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی بھیجی ہے اور اس نے رپورٹ بھی پیش کر دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس سلسلےمیں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات کی ہے اور انہوں نے یقین دلایا کہ رقم جاری کر دی جائے گی لیکن، آج تک مرکز نے رقم جاری نہیں کی ۔ ہم نے رقم حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ آخری راستہ ہے۔ ہمیں احتجاج کرنا ہوگا۔
کرناٹک کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے
 دہلی کے جنتر منتر پر کرناٹک کے وزیر اعلیٰ، تمام وزراء اور بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرکیلئے جمع ہوئے۔  وزیراعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ ریاست کو اس کا منصفانہ حصہ نہیں مل رہا ہے جس کا مرکز نے ریاست سے وعدہ کیا تھا، اس لئے یہ احتجاج منظم کیا جا رہا ہے۔کرناٹک حکومت کا مطالبہ ہے کہ مرکز کو چاہیے کہ وہ آئینی ضوابط کے مطابق ریاست کو مناسب مالی وسائل فراہم کرے ۔سدارامیا نے کہا کہ یہ احتجاج سیاسی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ’’آج ہم تاریخی جنتر منتر پر احتجاج کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار، تمام۳۴؍ وزراء اور۱۳۵؍ایم ایل اے احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ ’’یہ ریاست اور کرناٹک کے عوام کے مفاد میں احتجاج ہے۔‘‘
 کیا معاملہ ہے؟
 وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا’’کرناٹک انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، سیس، سرچارج اور کسٹم ڈیوٹی کے ذریعے مرکز کو۴ء۳۰؍ لاکھ کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کر رہا ہے لیکن مرکز کی طرف سے ریاست سے لیے گئے۱۰۰؍ روپے میں سے صرف۱۲؍ سے۱۳؍ روپے ہی واپس کئے جاتے ہیں۔ کرناٹک کو۵۰؍ ہزار ۲۵۷؍کروڑ روپے مل رہے ہیں جبکہ اتر پردیش کو۲ء۸۰؍ لاکھ کروڑ روپے اور بہار کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ دیے گئے ہیں۔
 کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں کہ مرکز کمزور معاشی پس منظر والی ریاستوں کو زیادہ رقم کیوں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج ہے کہ ہمیں ہماری نمائندگی کے مطابق فنڈ اورٹیکس میں حصہ ملے۔پانچ سال پہلے کرناٹک کو۵۰؍ہزار کروڑ روپے ملتے تھے۔ آج جبکہ بجٹ کا حجم دوگنا ہو گیا ہے تب بھی ریاست کو صرف۵۰؍ ہزار کروڑ ہی مل رہے ہیں،کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟انہوں نے کہا کہ `اگر وسائل کی تقسیم۱۹۷۱ءکی مردم شماری کے مطابق کی جائے تو کوئی ناانصافی نہیں ہے، فی الحال تقسیم۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ہوئی ہے۔ جن ریاستوں نے آبادی کو کنٹرول نہیں کیا  ہےان کیلئے زیادہ مختص کیا جاتا ہے۔

karnataka Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK