• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسجد میں جے شری رام کا نعرہ لگانا مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مترادف نہیں: کرناٹک ہائی کورٹ

Updated: October 16, 2024, 8:03 PM IST | Bengaluru

کرناٹک ہائی وکرٹ نے ۲؍ ملزمین کے خلاف مجرمانہ کارروائی کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسجد میں جے شری رام کا نعرہ لگانے سے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔‘‘ ملزمین نے مبینہ طور پر مقامی مسجد میں داخل ہو کرجے شری رام کا نعرہ لگایا تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

کرناٹک ہائی کورٹ نے ۲؍ افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی کو منسوخ کیا ہےجن پر مذہبی جذبات مجروح کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مسجد میں ’’جے شری رام‘‘کا نعرہ لگانے سے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘
۱۳؍ ستمبر کو کرناٹک ہائی کورٹ کے جج ایم ناگاپراسنا نے دکشن کنڑسے تعلق رکھنے والے ۲؍ ملزمین کیرتھن کمار اور سچن کمار کے خلاف مجرمانہ کارروائی کومنسوخ کرنےکا حکم جاری کیا تھا۔پولیس نے ان افراد کے خلاف ایک شکایت پر کیس درج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ دونوں ستمبر ۲۰۲۳ءکی رات مبینہ طور پر مقامی مسجد میں داخل ہوئے تھے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ 
پولیس نے ان دونوں کے خلاف تعزیز ات ہند کی دفعہ ۲۹۵؍ اے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی کوشش کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ خیال رہے کہ ’’جے شری رام‘‘ کو ہندوتوا گروپ سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ’’سیکشن ۲۹۵؍ اے جان بوجھ کر بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں سے متعلقہ ہے جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہبی عقائد کی توہین کر کے مذہبی جذبات مجروح کرنا ہے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ ناقابل فہم ہے کہ کسی بھی شخص کے ’’جے شری رام کا نعرہ‘‘ لگانے پر کسی طبقے کےمذہبی جذبات کس طرح مجروح ہوسکتے ہیں۔ شکایت کنندہ نے خود ہی کہا ہے کہ ’’علاقے میں ہندو اور مسلم طبقے کے افراد ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں ، یہ واقعہ ان کے درمیان دشمنی کا باعث نہیں بن سکتا ہے۔‘‘
ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے دلیل پیش کی کہ ’’یہ مسجد عوامی ہے اسی لئے مجرمانہ مداخلت کاکوئی کیس نہیںبنتا، ’’جے شری رام ‘‘ کا نعرہ لگانا سیکشن ۲۹۵؍ اے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔‘‘کرناٹک حکومت نے اس دلیل کی مخالفت کی تھی اوردعویٰ کیا تھا کہ مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔ تاہم، عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ ’’مبینہ جرم ‘‘نے امن عامہ کو بری طرح متاثر نہیں کیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ ’’ہر جرم کو تعزیزات ہند کی دفعہ ۲۹۵؍اے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ایسی کوئی سرگرمی جس سے امن قائم کرنے یا امن عامہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کو دفعہ ۲۹۵؍ اے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK