Inquilab Logo

کرناٹک ہائی کورٹ کو مذہبی اُمور کا جائزہ لینا ہی نہیں چاہئے تھا :جسٹس دھولیا

Updated: September 21, 2022, 10:03 AM IST | new Delhi

حجاب تنازع پر بحث کے دوران سپریم کورٹ کے جج کا اہم تبصرہ ، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دہرایا کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے

Due to the hijab controversy, the education of thousands of Muslim girls in Karnataka has been affected
حجاب تنازع کے سبب کرناٹک کی ہزاروںمسلم طالبات کی تعلیم متاثر ہوئی ہے

:سپریم کورٹ میں حجاب تنازع پر منگل کو ہونے والی  سماعت کئی معنوں میں اہم رہی کیوں کہ اس روز نہ صرف سینئرایڈوکیٹ دشینت دوے نے اپنی جرح جاری رکھی اور کئی  زبردست دلائل دئیے وہیں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے وہی راگ الاپا کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوران بنچ میں شامل جسٹس دھولیا نے یہ اہم تبصرہ کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کو لازمی مذہبی افعال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ اس پرغور کئے بغیر یا کوئی تبصرہ  کئے بغیر بھی آگے بڑھ سکتا تھا  اور اپنا فیصلے دے سکتا تھا ۔ 
دشینت دوے نے کیا کہا 
  دوے دوسرے روز بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بالکل واضح لفظوں میں کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ ضروری مذہبی امور اور مذہبی امور  کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر رہا اور اسی وجہ سے ایسا فیصلہ دیا جو واضح طور پر مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیاز کا سبب بنا ہوا ہے۔ دوے کے مطابق حجاب پہننے مسلم لڑکیوں کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ اس سے ان کے وقار میں اضافہ ہو تا ہے۔ حجاب کی وجہ سے نہ لاء اینڈ آر ڈر کا مسئلہ پیدا ہو تا ہے اور نہ  اس کی وجہ سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔  دوے نے کہا کہ یہاں مسئلہ مذہب کی لازمی حیثیت کے امور کا نہیں بلکہ صرف مذہبی امور کا ہے اور میرے خیال میں بنچ بھی یہ مانتی ہے کہ حجاب مسلمانوں کے مذہبی امور میں شامل ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلائل پیش کئے 
  کرناٹک حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اپنی دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے ۔ اس  لئےتعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے واضح لفظوں میں کہا کہ کرناٹک حکومت نے ڈسپلن کے مدنظر تعلیمی اداروں کو ڈریس کوڈ نافذ کرنے کو کہا ہے۔ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ایران سمیت کئی اسلامی ممالک میں خواتین حجاب کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ قرآن میں حجاب کا ذکر ہونے بھر سے وہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہو جاتا۔سالیسٹر جنرل نے کرناٹک حکومت کے اس حکم کو پیش کیا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ سبھی طلباء و طالبات یونیفارم پہنیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سرکیولر مذہبی نہیں ہے ۔تشار مہتا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ  ۲۰۲۱ءتک سبھی طلبہ آرام سے ڈریس کوڈ پر عمل کر رہے تھےلیکن سوشل میڈیا پر پی ایف آئی نے مہم چلا کر طالبات کو  حجاب   استعمال کرنے کے  لئے اکسایا اور یہ اتنا بڑا مسئلہ بن گیا۔  
جسٹس دھولیا کے تبصرے
 اس دوران بنچ کے جسٹس دھولیا  نے خاص طور پر تشا ر مہتا کی جانب سے دلائل پیش کرنے کے دوران کچھ اہم تبصرے کئے۔ انہوں نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نےایک طالبہ کے ’ٹرم پیپر ‘ کو بنیاد بناکر یہ فیصلہ دیا ہے۔ اسے مذہبی امور کی طرف دیکھنے کی ضرو رت ہی نہیں تھی ۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ یہ حکم یو نیفارم سے متعلق ہے اور قرآن میں حجاب کا  صرف ذکر موجود ہے،جس کے جواب میں جسٹس دھولیا نے کہا کہ عرضی گزاروں نے قرآن کی  آیتوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے حوالے سے کئی اہم ثبوت بھی پیش کئے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ  میںبدھ کو بھی اس معاملے پر سماعت جاری رہے گی   جو ممکنہ طور پر آخری دن ہو سکتا ہے۔

hijab Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK