Updated: April 27, 2023, 10:16 AM IST
| ahmednager
پولیس کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود احمد نگر سے کسانوں نے پیدل سفر شروع کیا، حکومت پر وعدہ خلافی کا الزام، انتظامیہ کی جانب سے سخت دھوپ کا حوالہ دینے پر مظا ہرین نے کہا ’’ کسان زندگی بھر دھوپ ہی میں کام کرتا ہے ، آج اسی دھوپ میں اگائی گئی پیاز کو مناسب دام نہیں مل رہا ہے۔‘‘
کسانوں کو حکومت کی زبان پر اعتماد نہیں رہ گیا، دوبارہ احتجاج شروع کر دیا گیا
حکومت کی یقین دہانی کے بعد مارچ کے مہینے میں اپنا لانگ مارچ واپس لینے والے کسان دوبارہ ممبئی کی طرف کوچ کر نے پر مجبور ہیں۔ کسانوں کا الزام ہے کہ حکومت نے ان سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ حالانکہ پولیس نے انہیں اس مارچ کی اجازت نہیں دی لیکن کسان اپنے ارادوں پر قائم ہیں اور کافی بحث ومباحثہ کے بعد بدھ کو وہ احمد نگر کے اکولے تعلقہ سے ممبئی کیلئے روانہ ہوئے۔مارچ کی قیادت کرنے والی تنظیم کسان مہاسبھا کے لیڈر اجیت نوالے کو پولیس نے نوٹس بھی دیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ مارچ میں کسانوں نے ناسک سے ممبئی تک مارچ نکالا تھا۔ وہ ممبئی سے قریب شاہ پور علاقے میں پہنچ گئے تھے اور قیام کیا تھا تبھی وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے کسان لیڈروں سے گفتگو کرکے ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھااور کسان شاہ پور سے الٹے پائو ں لوٹ گئے تھے۔ اس بات کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن حکومت نے اب تک کسانوں کے مطالبات کو پورا کرنے کے تعلق سے کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے۔ لہٰذا کسانوںنے دوبارہ ممبئی کوچ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن اس بار وہ احمد نگر کے تعلقہ اکولے سے روانہ ہوئے ۔ پولیس نے اس مارچ کی اجازت نہیں دی تو کسانوں نے بلا اجازت ہی مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس پر پولیس نے کسان مہاسبھا کے لیڈر اجیت نوالے کو ۱۴۹؍ کا نوٹس دیا۔ پولیس کا کہنا ہے دھوپ سخت ہے اور لو لگنے جیساکوئی حادثہ نہ پیش آئے اسلئے یہ مارچ نہ نکالا جائے۔ لیکن اجیت نوالے اس نوٹس کے باوجود مارچ نکالنے پر بضد تھے۔ پولیس نے مارچ کے مقررہ وقت (دوپہر ۳؍) تک کسان لیڈروں سے بات کرکے انہیں منانے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی۔ اطلاع کے مطابق پولیس اور کسان لیڈروں کی حیل وحجت کئی گھنٹوں تک چلتی رہی بالآخر شام ساڑھے ۵؍ بجے اکولے سے یہ قافہ روانہ ہو ہی گیا۔
’’ حکومت کا نقاب اتارا جائے گا‘‘
اجیت نوالے کا کہنا ہے کہ’’ کسان کے بیٹے کا دل اپنے والد کیلئے کس قدر تڑپتا ہے یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ پولیس والے ہمارے دشمن نہیں ہیں، ان کا جو کام ہے وہ کر رہے ہیں۔ انہیں کرنے دیجئے! ‘‘ یاد رہے کہ پچھلی بار جب کسانوں نے مارچ نکالا تھا تو وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا تھا کہ وہ کسان کے بیٹے ہیں اس لئے کسانوں کا درد سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کسانوں کے مسائل ضرور حل کریں گے۔ اجیت نوانے اسی پر طنز کر رہےتھے۔ نوالے نے کہا ’’حکومت کو کسانوں کے دھوپ میں چلنے کی بڑی فکر ہے۔ ہم بتادیں کہ کسان زندگی بھر تپتی دھوپ ہی میں کام کرتے ہیں۔ اسی تپتی دھوپ میں کام کرکے اگائے ہوئے پیاز کو آج صرف ۳۰۰؍ سے ۴۰۰؍ روپے دام مل رہے ہیں۔‘‘ انہوںنے کہا ’’تیز دھوپ میں سخت محنت سے کئے گئے کاموں کا کوئی پھل کسان کو نہیں مل رہا ہے ، حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے؟اس وقت انہیں کسان یاد نہیں آتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’ ’ آج حکومت کے چہرے سے نقاب ہٹانے کیلئے کسان سڑکوں پر اترے ہیں۔‘‘
بیشتر سفر رات میں کیا جائے گا
اجیت نوالے نے کہا کہ’’ اب ہمارے مارچ کو ملتوی کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الگ الگ جگہ سے ہمیں پیغام مل رہے ہیں۔ ہم سبھی کا احترام کرتے ہیں لیکن اب ہم مارچ نہیں روکیں گے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ درست ہے اس وقت دھوپ سخت ہے ۔ کسانوں کی جانوں کی ہمیں بھی فکر ہے ۔ اسی لئے ہم نے دوپہر ۳؍ بجے کے بعد سفر شروع کرنےکا فیصلہ کیا تھا۔ ہم زیادہ تر سفر رات کے وقت کریں گے۔‘‘ مارچ شروع کرنے سے پہلے کسانوں نے راستے میں اپنے کھانے پینے کا انتظام کر لیا تھا اور پہلا کھانا انہوں نے بدھ کی دوپہر کو اکولے ہی میں کھایا تھا۔ یہاں کسانوں نے چولہا چوکی اور راشن وغیرہ پہلے ہی تیار رکھا تھا۔ اس کے بعد دال چاول اور بیگن کی ترکاری بنا کر کسانوں میں تقسیم کی گئی۔ کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کرنے کے بعد کسانوں کو نکلنا تھا لیکن پولیس اور انتظامیہ سے گفتگو کے سبب اس میں تاخیر ہوئی اور یہ مارچ ساڑھے ۵؍ کے بعد روانہ ہوا۔
اس دوران وزیر محصول رادھا کرشن وکھے پاٹل نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال اس مارچ کو روک دیں۔ ہم کسان لیڈروں سے رابطے میں ہیں اور ان کےمسائل حل کرنے کے تعلق سے سنجیدہ ہیں۔