• Sun, 26 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

کرلا بس حادثہ: داستان الم، فون آیا لیکن وہ گھرنہ آسکے

Updated: December 11, 2024, 7:01 PM IST | Shahab Ansari | Kurla

آفرین شاہ اور انعم شیخ نے کرلا ریلوے اسٹیشن سے رکشا نہ ملنے کی وجہ سے اپنے اپنے والد کو فون کیا تھا لیکن دونوں کا حادثہ میں انتقال ہوگیا۔ ہمیشہ فون پر جواب دینے والے اسلام انصاری نے فون نہیں اٹھایا

Afreen Shah. Photo: INN
آفرین شاہ۔ تصویر: آئی این این

 

ایک نئی کمپنی میں ملازمت کا پہلا دن مکمل کرکے ۱۹؍ سالہ آفرین شاہ پیر کی شب کرلا اسٹیشن پر پہنچ گئی لیکن کرلا کے سی ایس ٹی روڈ پر اپنی رہائش گاہ واقع شانتی نکیتن بلڈنگ جانے کیلئے رکشا نہ ملنے پر اس نے اپنے والد عبدالسلیم شاہ کو فون کرکے درخواست کی کہ وہ اسے لینے اسٹیشن آجائیں لیکن انہوں نے بیٹی کو مشورہ دیا کہ وہ اوپر نیو مل روڈ سے پیدل گھر آجائے تاہم ان کی بیٹی نے بازار والا راستہ اختیار کیا اور حادثہ کا شکار ہوگئی ۔ بیٹی سے فون پر بات ہونے کے بعد سے اس کے اہلِ خانہ اس کے گھر پہنچنے کا انتظار کرتے رہے لیکن اس کےاسپتال میں ہونے کی خبر ملی ۔
 عبدالسلیم شاہ کے مطابق ان کی بیٹی پڑھائی کے ساتھ ملازمت کررہی تھی اور وہ آئندہ ۶؍ مہینوں میں اس کی شادی کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے لیکن اس حادثہ میں اس کا انتقال ہوگیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس راستے سے ان کی بیٹی آرہی تھی اس پر بس نہیں چلتی لیکن یہ حادثہ ہونا تھا تو ہوگیا ۔
 آفرین ۲؍ بھائیوں میں تنہا بہن تھی ۔ بھنگار کا کاروبار کرنے والے عبدالسلیم کے مطابق شب تقریباً پونے ۱۰؍ بجے انہیں بھابھا اسپتال سے فون آیا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی کا فون اسپتال والوں کے پاس ہے اور انہیں اسپتال آنے کو کہا گیا ۔ وہاں پہنچنے پر انہیں ان کی بیٹی کی لاش دکھائی گئی ۔ انہیں وہیں پر پتہ چلا کہ کرلا میں کسی بس نے کئی افراد کو ٹکر ماردی ہے ۔
 عبدالسلیم نے سیاستدانوں ، پولیس اور شہری انتظامیہ پر شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے انہیں اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انہوں نے کہا کہ کرلا اسٹیشن سے کافی دور تک راستے پر غیر قانونی ہاکروں کا قبضہ ہے اور شدید بھیڑ بھاڑ میں چلنے کیلئے بھی راستہ دستیاب نہیں ہوتا ۔ رکشا والے ان کے علاقے میں آنے سے منع کرتے ہیں لیکن کوئی بھی ان مسائل کو حل کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری محکموں کو عوام کے تحفظ کے اقدام کرنے چاہئیں ۔

 فون پر جواب نہ ملنے پر والد کی تلاش شروع کردی  تھی

ممبئی: پیر کی شب بیسٹ بس حادثہ میں جان گنوانے والے اسلام نظام انصاری (۴۸) کے فرزند عرفان (۲۴) نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کے والد نے گھر والوں کے فون کا جواب نہ دیا ہو لیکن پیر کو کئی مرتبہ فون کرنے پر بھی جب انہوں نے جواب نہیں دیا تو سب کو تشویش ہوگئی اور ان کی تلاش شروع کردی گئی تھی۔ اس وقت تک گھر والوں کو کرلا بازار میں حادثہ کی اطلاع نہیں تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی اس حادثہ میں زخمی ہوئے ہیں۔  ہلائو پُل پر بلال مسجد کے قریب رہائش پذیر عرفان کے مطابق اتوار کو ان کی منگنی کے بعد رات کو یہ لوگ واپس گھر آئے تھے اور پیر کی رات یہ حادثہ ہوگیا۔    عرفان نے بتایا کہ ان کے والد اولا، اوبر چلاتے تھے اور اگر ڈرائیونگ کررہے ہوں تب بھی فون ریسیو کرکے اتنا کہہ دیتے تھے کہ گاڑی چلا رہا ہوں بعد میں بات کروں گا۔ پیر کی رات کام کے سلسلے میں کسی پر وہ ناراض ہورہے تھے اور پھر اس شخص سے ملاقات کیلئے چلے گئے لیکن جب کافی دیر تک واپس نہیں آئے تو انہیں فون کیا گیا لیکن کئی مرتبہ فون کرنے پر بھی کوئی جواب نہیں ملا تو گھر والوں کو تشویش لاحق ہوگئی اور تقریباً ساڑھے ۹؍ بجے سے ان کی تلاش شروع کردی تھی۔ انہیں ان تمام مقامات پر ڈھونڈا گیا جہاں ان کی موجودگی کا امکان تھا لیکن وہ نہیں ملے۔  اس دوران ایک دوست نے انہیں کرلا میں حادثہ کی خبر دی تب بھی انہیں گمان نہیں تھا کہ ان کے والد حادثہ کا شکار ہوئے ہوں گے۔ عرفان نے مزید کہا کہ ’’مجھے ایک دوست نے کرلا حادثہ کا ویڈیو بھیجا اور کہا کہ اس میں ایک زخمی شخص میرے والد کےجیسا نظر آرہا ہے ویڈیو دیکھنے پر کپڑوں سے سمجھ آیا کہ میرے والد ہی ہیں اور پھر ہم بھابھا اسپتال دوڑے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے سینے اور سر میں شدید چوٹ آئی ہے، ان کا بہت زیادہ خون بہہ گیا ہے اور ان کی حالت بہت نازک ہے۔ پھر صبح ۶؍بجکر ۱۵؍ منٹ پر ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی خبر دے دی۔ ‘‘

کسی نے سڑک سے فون اٹھاکر حادثہ کی اطلاع دی

کنیز فاطمہ انصاری (۵۵)  گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے کرلا میں واقع انجمن اسلام اسکول کے سامنے واقع دیسائی نرسنگ ہوم میں ملازمت کررہی تھیں۔ پیر کی شب وہ ڈیوٹی پر جانے کیلئے گھر سے نکلیں اور پھر کچھ وقفہ کے بعد ان کے نمبر سے گھر پر فون آیا ۔ گھر والوں نے جب فون ریسیو کیا تو کسی نامعلوم شخص نے بتایا کہ جس خاتون کا یہ فون ہے وہ سڑک حادثہ میں زخمی ہوگئی ہیں اور ان کافون اور بیگ وغیرہ سڑک پر پڑا تھا۔   اس اطلاع پر ان کے اہلِ خانہ فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے اور پھر وہاں سے بھابھا اسپتال گئے جہاں انہیں کنیز فاطمہ کے انتقال کی خبر ملی۔

 بیٹی کو اسٹیشن لینے گئے مظفر شیخ شدید زخمی،  انعم کا انتقال

 کرلا اے ایچ واڈیا مارگ ہلائو پل پر رہائش پذیر مظفر شیخ (۵۲) کرلا کے حبیب اسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے جبکہ ان کی ۲۰؍سالہ بیٹی انعم کا انتقال ہوگیا ہے۔ دونوں باپ اور بیٹی پیر کی شب کرلا اسٹیشن سے گھر آتے ہوئے بے قابو بس کی زد میں آگئے۔کرلا میں آل کرلا کمیٹی کے صدر عبدالکریم شیخ نے بتایا کہ انعم کے چچا انور سے انہیں معلوم ہوا کہ انعم کیک وغیرہ بنانے کا کورس کرنا چاہتی تھی اس لئے حادثہ سے محض ایک روز قبل ہی اس کے کورس کیلئے بھاری فیس اداکی گئی تھی۔  پیر کو وہ اپنی کلاسس سے گھر واپس آرہی تھی لیکن کرلا اسٹیشن سے کوئی بھی رکشا ڈرائیور ہلائو پل آنے کو تیار نہیں ہوا جس پر اس نے اپنے والد کو فون کرکے ان سے کہا کہ وہ اسے اسٹیشن سے گھر لینے آجائیں۔ بیٹی کی درخواست پر مظفر شیخ اسے لینے کرلا پہنچ گئے اور جب وہ دونوں موٹر سائیکل پر واپس گھر آرہے تھے تبھی بیسٹ کی بس نے انہیں شدید ٹکر ماری جس کی وجہ سے انعم کا انتقال ہوگیا اور مظفر شیخ اسپتال میں زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں ۲۴؍ گھنٹوں کیلئے آبزرویشن میں رکھا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK