بے قابو بیسٹ بس کی زد میں آکر جان گنوانے والوں کی تعداد ۸؍ ہوگئی۔ معاوضہ کیلئے دستاویز جمع کردیئے گئے لیکن اب تک متوفین کے پسماندگان کو معاوضہ نہیں ملا۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 10:42 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai
بے قابو بیسٹ بس کی زد میں آکر جان گنوانے والوں کی تعداد ۸؍ ہوگئی۔ معاوضہ کیلئے دستاویز جمع کردیئے گئے لیکن اب تک متوفین کے پسماندگان کو معاوضہ نہیں ملا۔
کرلا بس سانحہ میں زخمی ہونے والے ایک شخص کا سائن اسپتال میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب انتقال ہوگیا جس سے اس حادثہ میں انتقال کرنے والوں کی تعداد ۸؍ ہوگئی ہے۔ اس دوران اس حادثہ کے متوفین کے پسماندگان کو حکومت اور بیسٹ کے ذریعہ اعلان کردہ معاوضہ ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔
گھاٹ کوپر (مغرب) کے گنگا واڑی میں حسینی مسجد کے قریب رہائش پذیر فضل الرحمٰن احمد باشا شیخ (۵۲)، ۹؍ دسمبر کو بیسٹ بس کی زد میں آنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور تب سے وہ سائن اسپتال میں زیر علاج تھے لیکن اتوار اور پیر کی درمیانی شب ان کا انتقال ہوگیا ۔ اس حادثہ میں زخمی ہونے کی وجہ سے تقریباً ایک ہفتے اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ان کے انتقال سے ان کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہیں۔
مرحوم کے قریبی جاننے والے ایک شخص نے بتایا کہ ان کے جسد کو تدفین کیلئے گھاٹ کوپر لے جایا گیا ہے لیکن خبر لکھے جانے تک ان کی تدفین کے وقت کا اعلان نہیں ہوا تھا۔
یاد رہے کہ مذکورہ حادثہ میں فضل الرحمٰن شیخ کے علاوہ ان کی اہلیہ عطاء النساء، بیٹی نغمہ خان اور نواسی ۴؍ سالہ مشکوٰۃ بھی زخمی ہو گئے تھے۔ ان میں سے ان کی اہلیہ کرلا کے بھابھا اسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ بیٹی اور نواسی کو اسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی اور گھر پر ہی ان کا علاج جاری ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کے ورثہ کو ۵؍ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ برہن ممبئی الیکٹرک سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ نے مہلوکین کے پسماندگان کو ۲؍لاکھ روپے معاوضہ اور زخمیوں کے مفت علاج کا اعلان کیا تھا۔ اب تک کسی کو معاوضہ نہیںملا ہے اور زخمیوں کا علاج بھی ۱۰۰؍ فیصد مفت نہیں ہو رہا ہے۔ کسی نہ کسی مد میں زخمیوں کے اہلِ خانہ کو رقم خرچ کرنی پڑی ہے۔ کچھ نہیں تو کم از کم نجی اسپتال سے سرکاری اسپتال لے جانے کا ۲۵۰۰؍ روپے کا ایمبولنس کا بل ہی ادا کرنا پڑا ہے۔
تازہ اطلاع کے مطابق معاوضہ کیلئے متوفین کے ورثہ کے دستاویز کلکٹر کے پاس جمع کردیئے گئے ہیں البتہ معاوضہ کا چیک اب تک کسی کو بھی نہیں ملا ہے۔
چونکہ حادثہ کرلا میں ہوا ہے اس لئے کرلا میں رہائش پذیر اکثر متاثرین سابق کارپوریٹر اشرف اعظمی سے رابطہ میں ہیں۔ اشرف اعظمی نے انقلاب کو بتایا کہ تقریباً تمام مرحومین کے رشتہ داروں کے دستاویز کلکٹر کے پاس جمع کرادیئے گئے ہیں اور جلد ہی انہیں چیک ملنے کی امید ہے۔ صرف مرحوم اسلام نظام انصاری (۴۸) کے آدھار کارڈ پر باندرہ کا پتہ درج ہے اور ان کے اہلِ خانہ گھاٹ کوپر میں رہائش پذیر ہیں اس لئے ان کی دستاویزی کارروائی اب تک مکمل نہیں ہوسکی ہے۔
اشرف اعظمی نے مزید بتایا کہ اسلام انصاری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر باندرہ اور گھاٹ کوپر دونوں مقامات کے پتے درج ہیں اس لئے تلاٹھی کے ذریعہ درخواست دے کر کوشش کی جا رہی ہے کہ انہیں گھاٹ کوپر کے پتہ پر معاوضہ مل جائے۔
یاد رہے کہ پیر کی رات بیسٹ کی ایک بس انتہائی تیز رفتار سے کرلا مارکیٹ میں گھس گئی تھی جس کے سبب متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا اور ۳؍ خواتین سمیت ۷؍ افراد کاانتقال ہوگیا اور دیگر ۴۲؍ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔
حادثہ کے وقت اس بس کو سنجے مورے چلا رہا تھا جو جائے حادثہ سے فرار ہوگیا تھا اور بعد میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اسے کرلا مجسٹریٹ کورٹ نے ۲۱؍ دسمبر تک کیلئے پولیس کی تحویل میں بھیج دیا ہے۔
اس دلخراش حادثہ کی وجہ سے ’ویٹ لیز‘ پر بیسٹ کی بسیں چلانے والے ڈرائیوروں کو مناسب تربیت نہ ملنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے اس کے باوجود اس سلسلے میں کوئی ضروری اقدام نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے کرلا سانحہ کے بعد بھی ایک ہفتے میں بیسٹ بس سے چند حادثات ہوچکے ہیں جن میں ۲؍ افراد کی موت بھی ہوئی ہے۔