حسن نصراللہ کا جسد خاکی مل گیا، زخم کا کوئی بڑا نشان نہیں، ایران کا انتقام کا عزم، سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ، امریکہ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 10:16 AM IST | New Delhi
حسن نصراللہ کا جسد خاکی مل گیا، زخم کا کوئی بڑا نشان نہیں، ایران کا انتقام کا عزم، سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ، امریکہ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی۔
اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ میں صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دھماکہ خیز ہوتی نظر آرہی ہے۔ چین اور روس نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایران نے حزب اللہ کے سربراہ کے قتل کے انتقام کی دھمکی دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تہران نے ’’اسرائیل کے جارحانہ اقدامات پر قدغن لگانے اور تشدد کوپورے خطے میں پھیل کر مکمل جنگ کی شکل اختیار کرلینے سے روکنے کیلئے فوری اور فیصلہ کن اقدام ‘‘ کی خاطر سلامتی کونسل کے فوری اجلاس کی مانگ کی ہے۔ اس بیچ اسرائیل کی جانب سے اتوار کو بھی لبنان پر مسلسل بمباری جاری رہی۔
سلامتی کونسل کے اراکین کو ایران کا انتباہ
قوام متحدہ میں ایرانی مندوب عامر سعید اراوانی نے حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد سلامتی کونسل کے تمام ۱۵؍ اراکین کو خط مکتوب روانہ کیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایران کی سفارتی حدود اور اس کے نمائندوں کے خلاف کسی بھی قسم کے حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ’’ہم بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اپنا حق استعمال کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ‘‘
حسن نصر اللہ کا جسد خاکی مل گیا
اتوار کوطبی اور سیکوریٹی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کا جسد خاکی بیروت کے جنوبی مضافات میں اسرائیلی فضائی حملے کے مقام سے مل گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حسن نصراللہ کے جسم پر براہ راست کوئی زخم نہیں تھے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی موت زور دار دھماکے کے اثرات کی وجہ سے ہوئی ہے۔
لبنان کی سرحد پر اسرائیلی ٹینک تعینات
اسرائیل نے جمعہ کے حملے میں، جس میں حسن نصراللہ شہید ہوئے، حز ب اللہ کے ۲۰؍ جرنیلوں کو قتل کردینے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے بعد سے بیروت پرا سرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جنوبی لبنان کے ساتھ ہی ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسرائیل نے شدید بمباری کی ہے۔ اسرائیل نے جہاں لبنان اور غزہ میں حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے وہیں اس بات کے اشارے بھی دیئے ہیں کہ اس کی توجہ کا مرکز اب لبنان ہوگا۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیل نے لبنان کی سرحدوں پر اپنے ٹینک اور ریزرو فوج کوتعینات کردیاہے۔ لبنان میں ۷؍ اکتوبر کے بعد سے اسرائیل حملوں میں جاں بحق ہونےوالوں کی تعداد ۱۶۴۰؍ ہوگئی ہے جن میں ۱۰۴؍ بچے اور ۱۹۴؍ خواتین ہیں۔
امریکہ نے قتل کو ’’منصفانہ اقدام‘‘ قراردیا
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ کی کو ’’منصفانہ اقدام‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ ’’ اب غزہ اور لبنان میں جنگ بندی ہونی چاہیے۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہائٹ ہاؤس میں امریکہ کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے جنگ بندی کو اسرائیل کی ضرورت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران یا حزب اللہ سے مکمل جنگ چھیڑ کر ایران شمالی اسرائیل میں بے گھر ہونےوالے شہریوں کی محفوظ گھر واپسی کو یقینی نہیں بنا پائےگا۔ کربی نے بتایا کہ امریکہ لبنان میں اسرائیل کے اگلے اقدام کے تعلق تل ابیب کے رابطے میں ہے۔
چین نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا
اُدھر چین نے مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر تشویش کااظہار کیا ہے اور بلا تاخیر جامع جنگ بندی کی مانگ کی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نےکہا کہ ’’مشرق وسطیٰ میں بلا تاخیر جامع جنگ بندی کی ضرورت ہے، علاقائی کشیدگی ختم کرنے کا راستہ ۲؍ ریاستی حل ہی ہے۔ ‘‘
ایرانی جاسوس پر اسرائیل کی مدد کا شبہ
فرانس کے اخبار ’ لی پیریسین ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کو حسن نصراللہ کے ٹھکانے کا پتہ ایک ایرانی جاسوس نے دیاتھا۔ اخبار نے لبنان کی سیکوریٹی فورسیز کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ’’ اسرائیل نے ایک ایرانی ایجنٹ کے ذریعے حساس معلومات حاصل کیں۔ ‘‘ ان کے مطابق مذکورہ جاسوس نے حسن نصراللہ کی بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں موجودگی کی نشاندہی کی تھی اور اسی کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اسرائیلی فوج نے حملہ کیا۔
حماس سربراہ یحییٰ سنوار محفوظ مقام پر منتقل
حسن نصراللہ کی شہادت کےبعد حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کردیاگیا ہے۔ اسرائیلی ذرائع نے بھی کی تصدیق کی ہے کہ سنوار نے اپناٹھکانہ بدل لیا ہے۔ واضح رہے کہ سنوار غزہ میں ہی موجود ہیں اور اسرائیل کے مسلسل حملو ں کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب نے ان کے قتل کا دعویٰ کیاتھا جو جھوٹا ثابت ہوا۔