Updated: April 13, 2025, 10:08 AM IST
| New Delhi
گورنر پر سختی کے بعد سپریم کورٹ کی واضح ہدایت،’’ صدر جمہوریہ ۳؍ ماہ میں بل منظور کریں‘‘،ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گورنر کےدستخط کے بغیر بل منظور ہوگئے ، تمل ناڈو حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ، وزیر اعلیٰ اسٹالن نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور ہدایت دونوں کا خیرمقدم کیا
تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کے ذریعے بل روکنے کے تعلق سےسپریم کورٹ کے فیصلے کا وزیر اعلیٰ اسٹالن نے خیرمقدم کیا ہے
ملک کی آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے صدر جمہوریہ کے لئے کوئی ہدایت جاری کی ہے۔ کورٹ نے بلوں کی منظوری کے سلسلے میں صدر جمہوریہ سے ہدایت نما اپیل کی ہے کہ وہ ۳؍ ماہ کے اندر اندر کسی بھی بل کو منظور کرلیں۔ خاص طور پر ان بلوں کو جو ریاستوں کے گورنر وں کی جانب سے بھیجے گئے ہیں۔یہ فیصلہ انتہائی اہم مضمرات کا حامل ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے مرکز اور ریاستوں کے درمیان گورنروں کی وجہ سےہونے والی کھینچ تان میں کمی آئے گی اور ریاستوں کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق قانون بنانے میں آسانی ہو گی۔ ساتھ ہی وفاقی ڈھانچہ کے فریم ورک میں کام کرنے میں بھی آسانی ہو گی۔ اس کے علاوہ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی بل گورنر کے دستخط کے بغیر قانون بن گیا ہو اور اسے نافذ بھی کردیا گیا ہو ۔
فیصلہ کیا ہے ؟
بلوں کو گورنرس کے ذریعہ اپنے پاس روکے رکھنے سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جمعہ کی شب عدالت کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا ۔ اس فیصلے میں پہلی بار سپریم کورٹ نے وقت کی حد مقرر کی ہے کہ صدر جمہوریہ کو گورنر کی جانب سے غور و خوض کے لئے موصول ہونے والے بلوں پر ۳؍ ماہ کے اندر فیصلہ کرلینا چاہئے۔اس مدت سے زیادہ تاخیر کی صورت میں مناسب وجوہات درج کرنی ہوں گی اور متعلقہ ریاست کو مطلع کرنا ہوگا۔ ریاستوں کو بھی قابل غور سوالوں کا جواب دے کر تعاون کرنا چا ہئے لیکن بلوں کو غیرت معینہ مدت تک زیر التوا نہیں رکھا جانا چاہئے۔
فیصلہ کس پس منظر میں ہے ؟
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ دنوں تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کی جانب سے اسٹالن حکومت کے ۱۰؍ بل غیر ضروری طور پر روک لینے پر انتہائی سخت رویہ اختیار کیا تھا ۔ کورٹ نے گورنر روی کو سخت سست کہا تھا جس کی وجہ سے وہاں آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا تھا کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی گورنر کے لئے سپریم کورٹ نے اتنے سخت الفاظ کااستعمال نہیں کیا تھا ۔ کورٹ نے بلوں کو زیر التوا رکھنے پر بہت بری طرح سے گورنر کے وکیل کو لتاڑا تھا ۔ساتھ ہی یہ حکم جاری کردیا تھا کہ جس تاریخ میں یہ بل اسمبلی سے منظور ہوئے ہیں انہیں اسی تاریخ سے قانون تسلیم کیا جائے اور نافذ مانا جائے۔ سپریم کورٹ کے اتنے بڑے فیصلے سے دہلی سے لے کر چنئی تک ہنگامہ مچ گیا ہے ۔ فیصلہ سنائے جانے کے ۴؍ دنوں بعد۴۱۵؍ صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعہ کی شب ۱۱؍ بجے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا گیا۔
کون سی بنچ تھی ؟
جسٹس پاردیوالا اور جسٹس مہادیون کی بنچ نے ۸؍ اپریل کو وہ فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد ملک کے وفاقی ڈھانچے کی بحث اور بھی تیز ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی ریاستوں کے معاملات میں مرکزکی مداخلت پر بھی گفتگو ہورہی ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ جہاں گورنر کسی بل کو صدر کے زیر غور رکھنے کے لئے ریزرو رکھتے ہیں اور صدر جمہوریہ اس پر اپنی منظوری نہیں دیتے ہیں تو ر یاستی حکومت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا پورا پورا اختیار ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل ۲۰۰؍گورنر کو کوئی بھی بل روکنے یا منظوری نہ دینے کا اختیار دیتا ہے لیکن اس بل کو غیرمعینہ مدت تک روکنے یا زیر التوا رکھنے کا اختیار قطعی نہیں دیتا ہے۔ اسی لئے یہ ہدایت جاری کی جارہی ہے کہ گورنر معینہ مدت میں بل منظور یا نامنظور کریں اور صدر جمہوریہ بھی اپنے پاس آنے والے بلوں پر ۳؍ ماہ کے اندر اندر فیصلہ کرلیں۔
وزیر اعلیٰ اسٹالن نے خیر مقدم کیا
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نےبہت دور رس نتائج کا حامل فیصلہ دیا ہے ۔ اس سے مرکز کی مداخلت کم ہوگی اور گورنر کا رول بھی طے ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ گورنر روی نے جو بل ۲۰۲۰ء سے روک رکھے تھے وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد خود بخود قانون بن گئے۔یہ کل ملاکر ۱۰؍ بل تھے جن کے نفاذ کاریاستی حکومت نے جی آر بھی جاری کردیا ہے۔ اس نفاذ پربھی ایم کے اسٹالن نے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا ہے۔