مدھیہ پردیش کیڈر کے سابق آئی اے ایس افسر راوت نے یہ بھی کہا کہ اگر ۱۰۰میں سے ۹۹؍ووٹ میں سے کوئی بھی اوپر نہیں ( نوٹا) آپشن کے حق میں جاتا ہے اور کسی امیدوار کو ایک ووٹ ملتا ہے، تب بھی وہ کامیاب ہوکر سامنے آئے گا۔
EPAPER
Updated: May 12, 2024, 7:35 PM IST | Inquilab News Network | Indore
مدھیہ پردیش کیڈر کے سابق آئی اے ایس افسر راوت نے یہ بھی کہا کہ اگر ۱۰۰میں سے ۹۹؍ووٹ میں سے کوئی بھی اوپر نہیں ( نوٹا) آپشن کے حق میں جاتا ہے اور کسی امیدوار کو ایک ووٹ ملتا ہے، تب بھی وہ کامیاب ہوکر سامنے آئے گا۔
سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے اتوار کو نوٹا کا’ علامتی‘‘ اثر بتاتے ہوئے کہا کہ اگر اسے کسی سیٹ پر ۵۰؍فیصد سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، تب ہی اسے پولنگ کے نتائج پر قانونی طور پر مؤثر بنانے کیلئے سوچا جا سکتا ہے۔
راوت، مدھیہ پردیش کیڈر کے ایک سابق آئی اے ایس افسر ہیں ، نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اگر ۱۰۰ میں سے ۹۹؍ووٹ میں سے ایک ووٹ اوپر سے کوئی نہیں (نوٹا) آپشن کے حق میں جاتا ہے اور کسی امیدوار کو ایک ووٹ ملتا ہے، تب بھی وہ جیت جائے گا۔
مدھیہ پردیش کی اندور لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کو اس وقت جھٹکا لگا جب اس کے امیدوار اکشے کانتی بام نے پرچہ ٔ نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ۲۹؍اپریل کو اپنا نام واپس لے لیا۔
بام نے بعد میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی، جس سے کانگریس نے اراکین سے اپیل کی کہ وہ ۱۳؍مئی کو اندور میں پولنگ کے دوران ای وی ایم پر نوٹاکے آپشن کو دبائیں تاکہ ’’زعفرانی پارٹی کو سبق سکھایا جا سکے۔‘‘اندور لوک سبھا سیٹ کی ۷۲سالہ تاریخ میں پہلی بار کانگریس انتخابی دوڑ سے باہر ہوئی ہے۔
۲۰۱۹ءکے لوک سبھا انتخابات میں اندور میں ۶۹؍فیصد ووٹنگ ہوئی تھی جس میں ۵۰۴۵؍ووٹرس نے نوٹاکا انتخاب کیا۔
راوت نے کہاکہ ’’موجودہ حالات میں، نوٹاکی صرف علامتی اہمیت ہے اور اس کا اثر کسی بھی سیٹ کے انتخابی نتائج پر نہیں پڑ سکتا۔انتخابات میں، اگر ۱۰۰؍میں سے ۹۹؍ووٹ نوٹاکو جاتے ہیں اور کسی امیدوار کو صرف ایک ووٹ ملتا ہے، تب بھی امیدوارکو فاتح قرار دیا جائے گا اور نوٹاکو نہیں۔‘‘سابق سی ای سی نے کہا کہ اگر کسی سیٹ پر ۵۰؍فیصد سے زیادہ ووٹر نوٹا کے حق میں ہیں، تب ہی اس ووٹنگ کے آپشن کو انتخابی نتائج پر قانونی طور پر مؤثر بنانے کے بارے میں سوچنے کا ایک نقطہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’۵۰؍فیصد سے زیادہ رائے دہندگان کو ایک بار ایک نشست پر نوٹاکا انتخاب کرنا ہوگا تاکہ سیاسی جماعت کو یہ دکھایا جا سکے کہ وہ مجرمانہ پس منظر والے امیدواروں یا دیگر غیر مستحق افراد کو اپنے ووٹ کے قابل نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ہی پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھے گا اور انہیں انتخابی نتائج پر نوٹاکو موثر بنانے کے لئے قوانین میں تبدیلی کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ستمبر۲۰۱۳ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر این او ٹی اے ` بٹن متعارف کروایا گیا تھا۔ اسے ووٹنگ کے اختیارات میں شامل کیا گیا تاکہ پارٹیوں کو داغدار امیدواروں کو میدان میں اتارنے سے روکا جا سکے۔
انتخابی اصلاحات کی وکالت کرنے والے گروپ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر) کے سربراہ انیل ورما نے کہا کہ ۲۰۱۴ءاور ۲۰۱۹ءکے پارلیمانی انتخابات میںنوٹاکو اوسطاً دو فیصد سے کم ووٹ ملے۔
’’نوٹاکے آپشن کو اگلے درجے تک لے جانے کے لیے اسے قانونی طور پر طاقتور بنایا جانا چاہیے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگر نوٹاکو کسی بھی سیٹ پر امیدواروں کے ووٹوں سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، تو الیکشن کو منسوخ کر دینا چاہیے اور ایک نئی رائے شماری کرانی چاہیے۔’’ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں `نوٹا` کو بہار کی گوپال گنج سیٹ پر سب سے زیادہ ووٹ ملے جہاں۵۱،۶۶۰؍ووٹرس نے اس آپشن کی حمایت کی اور اسے کل ووٹوں کا تقریباً پانچ فیصد ملا۔