Updated: September 18, 2024, 10:48 AM IST
| London
برطانیہ میں ایک ڈانس کلاس میں چاقو زنی کے بعد جس میں تین لڑکیاں جاں بحق ہو گئی تھیں، یہ افواہ اڑا دی گئی کہ ان حملوں کا مشتبہ شخص ایک مسلم پناہ گزین ہے،اس کے بعد پورے ملک میں بدترین نسلی فسادہوئے، ان فسادیوں میں سب سے کم عمر لڑکا ۱۲؍ سال کا تھا،جسے سزاسنائی گئی ہے۔
برطانیہ کے مسلم مخالف فساد کا ایک منظر۔ تصویر آئی این این
برطانیہ میں امسال انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے موسم گرما میں کئےجانے والے نسلی تشدد میں گرفتار کئے گئے افراد میں ایک ۱۲؍ سالہ لڑکا بھی شامل تھا، یہ گرفتار کئے گئے افراد میں سب سے کم عمر ہے جسے ایک مسجد کے باہر پولیس پر پتھر پھینکنے کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔ لڑکے کی عمر کے سبب اس کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے۔اس نے ۳۱؍ جولائی کے ہنگاموں میں شامل ہونے کی بات قبول کی تھی۔ اسے ضلع عدالت کی جج وینڈی لائڈ نے تین ماہ کی نقل وحرکت پر بندش اور ۱۲ ؍ ماہ کیلئے تربیتی پروگرام کا حصہ بننے کی سزا سنائی۔ جج نے لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ اس فساد نے ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، وہ ایک انتہا پسند پر تشدد مجمع تھا اور تم نے اس کا حصہ بننے کا انتخاب کیا ۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ میں ایک ڈانس کلاس میں چاقو زنی کی ایک واردات کے بعد فساد پھوٹ پڑے تھے، اس حملے میں تین لڑکیاں جاں بحق ہو گئی تھیں، اس حملے کے بعد یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ اس کامشتبہ شخص ایک مسلم تارکین وطن ہے، جس کے بعد پورے برطانیہ میں مسلم مخالف تشدد کا آغاز ہو گیا تھا۔یہ لڑکا ان ہزاروں فسادیوں میں شامل تھا جنہوں نے پولیس وین کو آگ لگائی اور ساؤتھ پورٹ کے اسلامک سوسائٹی کی مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔بہت جلد یہ تشدد شہروں اور قصبوں میں پھیل گیا، لیکن ان ہنگاموں میں اس وقت خاطر خوہ کمی آگئی جب اس میں شامل فسادیوں پر تیزی سے مقدمے قائم کئے گئے اور سزائیں دی جانے لگی۔پولیس نے ان ہنگاموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ۱۰۰۰؍ افراد کو گرفتار کیا تھا اور ۸۰۰؍ سے زیادہ مقدمے قائم کئے ۔