سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے اسٹےلگا دیا ، اتر پردیش کےمدرسوں میں عید جیسی خوشی کا ماحول، معاملے میں پہلی جیت قرار دیا۔
EPAPER
Updated: April 05, 2024, 11:31 PM IST | Agency | New Delhi
سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے اسٹےلگا دیا ، اتر پردیش کےمدرسوں میں عید جیسی خوشی کا ماحول، معاملے میں پہلی جیت قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے اترپردیش مدرسہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پرعبوری روک عائد کرتے ہوئے فیصلے میں بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی دلائل خارج کر دئیے۔اس کے ساتھ ہی اس معاملہ میں مرکزی حکومت، یوپی حکومت اور یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے اترپردیش اور مرکزی حکومتوں کو ۳۱؍مئی تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔اس عدالتی فیصلے سے ریاست کے مدارس کے لاکھوں طلبہ اور اساتذہ کے مستقبل پر لٹک رہی خطرے کی تلوار فی الحال ٹل گئی اور انہیں بڑی راحت ملی ہے۔تاہم ،سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اترپردیش اور مرکزی حکومتوں کی مدارس کے تعلق سے بدنیتی بھی پوری طرح اجاگر ہوگئی جنہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ،جسٹس جے پی پاردی والا اورمنوج مشراکی بنچ نےالٰہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک لگاتے ہوئے اپنے مشاہدہ میں کہا کہ ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ کی دفعات کو سمجھنےمیں بادی النظر میں غلطی کی۔اس فیصلے سے مدارس میں پڑھنے والے ۱۷؍ لاکھ طلبہ کا تعلیمی مستقبل متاثر ہوگا۔بنچ نے ہائی کورٹ کی اس دلیل کو بھی خارج کردیا کہ اس کے ذریعہ مذہبی تعلیم کیلئے ہدایات فراہم کی جاتی ہیں۔بنچ نے واضح کیا کہ مدرسہ ایکٹ کا مقصد اور کردار ریگولیٹری نوعیت کا ہے۔ہائی کورٹ کے ذریعہ مدرسہ بورڈ کے قیام کو سیکولرزم کی خلاف ورزی قراد ئیے جانے کے دلیل کوبھی خارج کرتےہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مدرسہ کی تعلیم کو بورڈ کے ریگولیٹری اختیارات سے مخلوط کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: بابری مسجد انہدام، گجرات فساد کے ابواب حذف
سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اگر مقصد مدارس کے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تو اس کا حل مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنے میں نہیں بلکہ اس کیلئے مناسب ہدایات جاری کرنے میں ہےتاکہ طلبہ معیاری تعلیم سے محروم نہ ہوں۔
ادھر اترپردیش میں مدرسوں سے وابستہ لاکھوں افرادکے لئے جمعۃ الوداع کا دن’عید‘ کے دن کی طرح خوشیوں بھرا ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ سے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگنے کی خوشی میں سبھی نے ایک دوسرے کو مبارکبادپ یش کی۔ ساتھ ہی مدارس کے ذمہ داران نے خود احتسابی کے ساتھ اپنی خامیوں کو دور کرنے اور عہد حاضر کے تقاضوں کے تحت عمل کرنے کے عزم کا اظہارکیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نےکہا کہ رمضان المبارک کے الوداع کے دن سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔سبھی کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتر پردیش کے مدارس رمضان کے بعد کھلیں گے اورایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر کی لائن پر کام کریں گے۔
آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کےجنرل سیکریٹری وحیداللہ خاں سعیدی نے سپریم کورٹ کے فیصلےکا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے اتر پردیش کے ۱۶۵۱۳؍ منظور شدہ اور۵۶۰؍امداد یافتہ مدارس کے مدرسین و ملازمین و منتظمین نے راحت کی سانس لی ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اتر پردیش کے مدارس کے لئے ایک تاریخ رقم کرے گا اور آئے دن مدرسوں کے خلاف کی جارہی سازشوں کو بھی بے نقاب کرے گا۔ وحیداللہ خاں سعیدی یہ بھی مانتے ہیں کہ اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ کےراستے میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور انگریزی ،سائنس ، ریاضی و دیگرجدید مضامین کو اختیاری مضمون کی بجائے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسےلازمی مضمون بنایا جانا ضروری ہے۔
اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتےہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کی گئی ہے اور مدارس سے وابستہ افرادمیں خوشی کی لہرپائی جارہی ہے جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے لاکھوں طلبا اور ہزراوں اساتذہ کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگ گیا تھا۔دریں اثنا، مدارس سے وابستہ دانشوروں کا ایک طبقہ مذکورہ معاملے سے سبق لیتے ہوئےخوداحتسابی اور اصلاح پرزوردےرہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں طلبہ کی تعداد بڑھانے پر زور دیا جائے۔ مدرسہ سے متعلق تمام دستاویزات کو ترتیب دیںاور انہیں درست کر لیں، دستاویزات کے حوالے سے کوئی لاپروائی نہیں ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ ا لٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ یوپی بورڈآف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ۲۰۰۴ء کو غیر آئینی قرار دے کرکالعدم قرار دینےکے فیصلہ کے خلاف منیجر اسوسی ایشن مدارس عربیہ یوپی ،انجم قادری اور دیگر عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے دلیل دی تھی کہ ہائی کورٹ نے صوابدیدی حکم نامہ پاس کرتے ہوئے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ۔منیجر اسوسی ایشن مدارس عربیہ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے پرزور دلائل دئیے اور مدارس کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔انہوںنے ہائی کورٹ کے اس نتیجہ کو پوری طرح مسترد کردیا کہ مدارس میں ریاضی ،سائنس ، ہندی اور انگریزی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔انہوںنے کہاکہ ۱۹۰۸ء سے ہی مدرسہ بورڈ موجود ہے۔۱۹۸۷ء اور پھر ۲۰۰۴ء میں بھی قانون سازی ہوئی۔ انہوں نے ملک میں چلنے والے گروکل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کئی گروکل اچھا کام کررہے ہیں ،تو کیا انہیں بند کردیا جانا چاہئے؟سنگھوی نے مزید کہا کہ ان کے والد نے بھی ایک گروکل میں تعلیم حاصل کی۔سپریم کورٹ میں اترپردیش اور مرکزی حکومتوں نے اپنی بدنیتی اجاگر کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرنے پر زور دیا۔ اترپردیش حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ میں گرچہ مدرسہ بورڈ کا دفاع کیا لیکن عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ہم نے اسے قبول کرلیا۔ہم پر مدارس کے اخراجات کو برداشت کرنے کا بوجھ نہیں ڈالا جانا چاہئے۔مرکزی حکومت نے بھی الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مدارس مفلوج نہیں ہوں گے بلکہ ریاست ان مدارس کو امداد نہیں دے گی۔اس معاملہ میں عرضی گزاروں کی طرف سے کئی سینئر وکلاء پیش ہوئے۔مکل روہتگی نے دلیل دی کہ مدارس کو حکومت سے پوری امدا د نہیں ملتی۔کئی مدارس کو مکمل امداد ملتی ہے اور کئی کو جزوی مدد ملتی ہے اور بڑی تعداد میں مدارس ہیں وہ پرائیویٹ ہیں۔ یہ سبھی مدارس ۲۰۰۴ء کے ایکٹ کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں۔