ریاست کےتمام غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے ہو گا ،مسلم پرسنل لاء بورڈ،اسلامک سینٹر آف انڈیا اور اسد الدین اویسی نے آواز بلند کی ، مدارس کونشانہ بنانے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ
EPAPER
Updated: September 02, 2022, 10:56 AM IST | Lucknow
ریاست کےتمام غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے ہو گا ،مسلم پرسنل لاء بورڈ،اسلامک سینٹر آف انڈیا اور اسد الدین اویسی نے آواز بلند کی ، مدارس کونشانہ بنانے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ
ترپردیش میں غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے کے حکم جاری کیا گیا ہے جس پر سخت تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈ مدارس کے علاوہ سبھی مدارس کا سروے کئے جانے کا حکم صادر کیا گیا ہے ۔ بورڈ سے تسلیم شدہ مدارس کی تعداد۱۶؍ہزار ۵۱۳؍ہے ، اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مدارس و مکاتب دارالعلوم ندوۃ العلماء، دارالعلوم دیوبند ، مظاہر العلوم سمیت دیگر اداروں کے ماتحت تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہیں جبکہ بڑی تعداد میں مدارس این جی اوز کے تحت بھی چل رہےہیں۔ حکومت اب سبھی مدارس کا سروے کرانے جارہی ہے ، سروے کمیٹی اے ڈی ایم کی نگرانی میں کام کرے گی ، ضلع بیسک تعلیمی افسر ،ضلع اقلیتی افسر اور متعلقہ حلقہ کے ایس ڈی ایم بھی کمیٹی میں شامل ہوںگے ۔ ۱۰؍اکتوبر تک سرے مکمل کرکے ڈی ایم کے ذریعہ ۲۵؍اکتوبر تک رپورٹ حکومت کو سونپنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مدرسہ بورڈ کے مدارس کے تعلق سے بھی تین حکم نامے جاری ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ حکم راجدھانی کے گوسائی گنج حلقہ میں گزشتہ دنوں ایک مدرسہ میں ٹیچرکے ذریعہ بچے کو لوہے کی زنجیر سے باندھ کر زدوکوب کرنے کے واقعہ بعد جاری ہوا ہے۔ اس واقعہ کا قومی اطفال کمیشن نے بھی نوٹس لیا تھا۔ قومی اطفال کمیشن کے خط پر ۱۵؍جون کو مدرسہ تعلیمی بورڈ میں ہوئی میٹنگ میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ مدرسہ بورڈ کے علاوہ سبھی مدارس کا سروے کرایا جائے۔بورڈ ممبران نے اتفاق رائے سے اس قرارداد کو منظور کر تے ہوئے تجویز حکومت کو بھیج دی ۔ حکومت نے ۳۰؍اگست کو حکم نامہ جاری کرتے ہوئے یوپی کے سبھی ایسے مدارس جو مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ نہیں ہیںان کا سروے کرانے کا حکم دے دیا ۔
اس سروے کی زد میں تسلیم شدہ مدارس کے علاوہ وہ سبھی مدارس آئیں گے جو بڑے دینی تعلیمی اداروں جیسے لکھنؤ کے ندوۃ العلماءاور سہانپور کے دارالعلوم دیوبند سے ملحق ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مدارس این جی او کے تحت چل رہے ہیں اور بڑی تعداد میں مساجد میں بھی مکتب کی شکل میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس حکم نامے کے ساتھ سروے کا خاکہ بھی منسلک ہے ، جس میں ۱۲؍نکاتی معلومات جمع کی جائیںگی کہ مدرسہ کس تنظیم کے تحت چل رہا ہے ،بچے کتنے ہیں ،اساتذہ کی تعداد، نصاب تعلیم ، ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہےوغیرہ۔
اس حکم نامے پر ملی رہنمائوں نےسخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس تعلق سے باقاعدہ بیان جاری کیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بہانے بناکر مدارس کو نشانہ بنانے کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یہی پیمانہ گروکل، مٹھوں، دھرم شالاؤں اور برادران وطن کے دیگر مذہبی اداروں کیلئے کیوں نہیں اپنایا جاتا ؟بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یوپی اور آسام میں جس طرح مدارس پر شکنجہ کسا جارہا ہے اور اس سلسلے میں معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر یا تو مدارس کو بند کیا جارہا ہے، یامدارس کی عمارت کو منہدم کیا جارہا ہے، یا پھر ان مدارس و مساجد میں کام کرنے والوں پر بلا دلیل دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے اور بلاثبوت کارروائی کی جارہی ہے، یہ آئین میں دیئے گئے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت آئین کوطاق پر رکھ کر من مانی کارروائی کررہی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اس طرح کی متعصبانہ اور نفرت کے جذبہ پرمبنی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتا ہے اور کسی منفی نظریہ کے بجائے آئین کی روح پرعمل پیرا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔
بورڈ مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں اور ایسے غیر قانونی اقدامات کو اجتماعی کوششوں کے ذریعہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے روکنے کی کوشش کریں۔ مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی نے مدارس کے سروے کے حکم کے بعد ٹویٹ کر کے سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔ انہوںنے کہا کہ ریاست کے سبھی مدارس آرٹیکل ۳۰؍کے تحت چل رہے ہیں ، پھر حکومت نے مذکورہ حکم نامہ کیوں جاری کیا ہے ؟ یہ سروے نہیں بلکہ ایک چھوٹی این آر سی ہے ۔ کچھ مدارس ایسےبھی ہیں جو یوپی مدرسہ بورڈ کے تحت آتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل ۳۰؍کے تحت جو حقوق ملے ہیں، ان میں حکومت کسی طرح کی دخل اندازی نہیں کرسکتی ہے ، صرف مسلمانوں کو پریشان کرناحکومت کی منشا ہے۔ انہوں نے یوگی حکومت کے سروے حکم پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ سروے تو سبھی اداروں کا ہونا چاہئے، آر ایس ایس کے اسکولوں کا بھی ہونا چاہئے بلکہ یوگی حکومت کو ایک اور حکم نامہ جاری کردینا چاہئے کہ یوپی میں اب کوئی مسلمان نہیں رہے گا ۔
اسلامک سینٹر آف انڈیا کےچیئرمین اور امام عید گاہ لکھنؤمولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ملک میں تمام اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کا آئینی حق حاصل ہے ۔ اسی بنیاد پر ملک بھر میں ہزاروں مدارس قائم ہیں ، جہاں ۹۰؍فیصد طلبہ کو مفت تعلیم دی جارہی ہے ۔ یہی مدارس ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ کررہے ہیں۔ جنگ آزادی میں بھی مدارس کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے، اس لئے ان مدارس کی خدمات کو سراہنا چاہئے ۔اس طرح کےاقدامات تو انہیں نشانہ بنانے کی کوشش ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرح کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ ادھر مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نےکہا کہ یہ جانچ نہیں ہے صرف سروے ہے ۔کسی کو اس حکم سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔سروے سے معلوم ہوسکے گا کہ کل کتنے طرح کے مدارس چل رہے ہیں۔واضح رہے کہ یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈ مدارس کے علاوہ سبھی مدارس کا سروے کئے جانے کا حکم صادر کیا گیا ہے ۔ بورڈ سے تسلیم شدہ مدارس کی تعداد۱۶؍ہزار ۵۱۳؍ہے ۔