ریاستی اقلیتی کمیشن کے نو منتخب چیئر مین پیارے ضیاء خان نے یہ الزام لگایا کہ ریاست کے اردو اسکولوں میں ہر سال پانچ ہزار کروڑ کی بدعنوانی ہو رہی ہے
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 11:19 PM IST | Mumbai
ریاستی اقلیتی کمیشن کے نو منتخب چیئر مین پیارے ضیاء خان نے یہ الزام لگایا کہ ریاست کے اردو اسکولوں میں ہر سال پانچ ہزار کروڑ کی بدعنوانی ہو رہی ہے
اکولہ ضلع کی پاتور تحصیل میں واقع اردو اسکول کی ایک خاتون ٹیچر کی جانب سے جنسی ہراسانی کی شکایت کے بعد ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئر مین پیارے ضیاء خان نے پاتور کے اس اسکول کا دورہ کیا اور پھر یہ سنسنی خیز لیکن شر انگیز مطالبہ کردیا کہ ریاست کے تمام اقلیتی اداروں اور اردو اسکولوں کا سروے کروایا جائے کیوں کہ وہاں پر ہر سال ۴؍ سے ۵؍ ہزار کروڑ روپے کی بدعنوانی ہو رہی ہے۔ساتھ ہی اگر ضرورت پڑے تو ان کا اقلیتی درجہ چھین لیا جائے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگادیا کہ ان اسکولوں سے جنسی ہراسانی کی بھی مسلسل شکایات موصول ہوتی ہیں۔ انہوں نے مقامی میڈیا کے سامنے کہا کہ ریاستی حکومت سے امداد یافتہ اردو اسکولوں میں بہت بڑے پیمانے پر بددیانتی ہورہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم سے سالانہ چار سے پانچ ہزار کروڑ کی بدعنوانی ہوتی ہے۔ اسے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ اردو اسکولوں کا سروے کروایا جائے اور اس کے لئے ریاستی اقلیتی کمیشن اور ریاستی تعلیمی محکمہ مل کر کام کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین پیارے خان کے الزامات کے بعد اکولہ پولیس نے مذکورہ بالا اردو اسکول کے ڈائریکٹر سید قمرالدین، ان کے بیٹے، بیٹی اور داماد کے خلاف ۱۱؍فروری کو ہی جنسی زیادتی اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔پیارے خان نے یہ بھی سنگین الزام لگایا کہ ریاست کے کئی اردو اسکولوں میں جنسی ہراسانی جیسے سنگین مسائل پیش آرہے ہیں۔ انہوں نے یہ انتباہ دیا کہ وہ مستقبل میں ریاست کے اردو اسکولوں میں ہونے والی اس بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لئے مسلسل سرگرم رہیں گے۔ پیارے خان نے کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ فرنویس سے گفتگو کرکے پاتور کے اسکول کے ڈائریکٹر سید قمرالدین کے خلاف مکوکا اور ایم پی ڈی اے کے تحت کارروائی کرنے کی درخواست کریں گے۔
اس سے قبل پیارے ضیاء خان نے اکولہ میں اپنے دورے کے وقت متعدد اسکولوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی اسکولوں میں بدعنوانی بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اسے ختم کرنے اور روکنے کے لئے سروے کروایا جانا ضروری ہے کہ آخر سرکار کی جانب سے دیا جانے والا پیسہ کہاں استعمال ہو رہا ہے؟ انہوں نے یہ الزام بھی لگادیا کہ جو اسکول مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہیں یا ٹرسٹ میں ان کا عمل دخل زیادہ ہے وہاں بہت زیادہ بے ضابطگیاں، بدعنوانیاں اور لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اکولہ کے اسکولوں کا دورہ کیا تو ہمیں ایسی کئی شکایتیں ملیں۔ کئی خاتون ٹیچرس نے ہمیں بتایا کہ ان سے جنسی ہراسانی ہوئی ہے۔ کئی ریٹائرڈ ٹیچرس نے بھی شکایت کہ ان کے حق کا پیسہ مینجمنٹ والےہڑپ لیتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ پر انہیں بہت کم رقم دی جاتی ہے۔
اقلیتی کمیشن کے چیئر مین نے یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بھلے ہی یہ ایک اسکول کا معاملہ تھا لیکن مسلم مینجمٹ اور اقلیتی اداروں میں یہ تمام بدعنوانیاں اور بے ضابطگیاں عام ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان اداروں کا اقلیتی درجہ ہی چھین لیا جائے یا پھر ان سے سرکاری امداد فوری طور پر واپس لے لی جائے ۔ میں اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سے مل کر باقاعدہ شکایت کروں گا۔
اس بارے میںاردو شکشک سنگھ کے جنرل سیکریٹری ساجد نثار نے کہا کہ ’’ ہم اقلیتی کمیشن کے چیئر مین کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جہاں بدعنوانی ہو رہی ہے اسے روکا جانا چاہئے لیکن اس بات سے شدید اختلاف کرتے ہیں کہ تمام اقلیتی اداروں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی ، بے ضابطگی اور جنسی ہراسانی کا معاملہ ایک یا دو اسکولوں کا ہو سکتا ہے یا فرض کرلیں کہ ۱۰؍ فیصد اسکولوں میں ایسا ہوا ہوگا لیکن اس کے لئے باقی ۹۰؍ فیصد اسکولوں کو بدنام کرنا اور انہیں دھمکیاں دینا ٹھیک نہیں ہے۔
جنوبی ممبئی کے ایک اسکول کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’ اقلیتی درجہ چھین لینا بچوں کا کھیل نہیں ہے اور وہ بھی تمام اردو اسکولوں یا تعلیمی اداروں کا، وہ تو بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ بدعنوانی ختم ہونی چاہئے لیکن یہ طریقہ بالکل درست نہیں ہے۔‘‘
واضح رہےکہ یوڈائس کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں اقلیتی اداروں کی تعداد ۸؍ ہزار ۷۱۹؍ ہے۔۲۰۲۴ءمیں مکمل ہونے والے تعلیمی سال کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں ۵؍ ہزار ۴۳۸؍ اردو میڈیم اسکول ہیں جن میںڈھائی لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔