اگر ۱۹۹۵ء کے پیٹرن پر غور کیا جائے تو اس وقت مسلم ۔ غیر مسلم دونوں ووٹرس نے کانگریس کے خلاف ووٹ دیا تھا، ٹھیک وہی صورتحال اس وقت بی جے پی کے ساتھ ہے۔
EPAPER
Updated: November 23, 2024, 4:26 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اگر ۱۹۹۵ء کے پیٹرن پر غور کیا جائے تو اس وقت مسلم ۔ غیر مسلم دونوں ووٹرس نے کانگریس کے خلاف ووٹ دیا تھا، ٹھیک وہی صورتحال اس وقت بی جے پی کے ساتھ ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے اور کچھ ہی دیر میں نتائج بھی سامنے آ جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں ریکارڈ پولنگ ہوئی ہےجس نے گزشتہ ۳۰؍ سال کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ۲۰۱۴ء سے عام رجحان یہ رہا ہے کہ جہاں جہاں زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے وہاں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے دعویٰ کیا ہے کہ زیادہ پولنگ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ مہایوتی حکومت دوبارہ بننے جا رہی ہے۔ میڈیا چینلوں نے پہلے ہی مہایوتی کی زیادہ سیٹوں کی توقع ظاہر کی تھی ، جب الیکشن کمیشن نے پولنگ کے حتمی اعداد وشمار پیش کئے اور بتایا کہ ریاست میں ۵۸؍ فیصد نہیں بلکہ ۶۵؍ فیصد پولنگ ہوئی ہے تو ان چینلوں نے بی جے پی اور مہایوتی کی سیٹوں میں بھی اضافہ کر دیا۔
تو کیا واقعی اس بار بھی بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی ہی ریاست میں برسراقتدار ہوگی؟ کہا کچھ نہیں جا سکتا لیکن حقائق پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ، میڈیا کے پروگرام اور سیاسی کارکنان کی محفلوں میں ایک ہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ اس بار مہاراشٹر نے ۳۰؍ سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سے قبل ۱۹۹۵ء میں یہاں ۷۱ء۶۹؍ فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔اسکے بعد اب ۶۵ء۱۱؍ فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں اس زبردست پولنگ کی وجہ سے پہلی بار شیوسینا ۔ بی جے پی کا اتحاد اقتدار میںآیا تھا جسے خود اس پر یقین نہیں تھا ۔ لیکن اگر اسی پیٹرن پر غور کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ پولنگ کا ہونا تبدیلی کی علامت ہے۔اس وقت بابری مسجد کی شہادت اور فسادات کے سبب مسلمان اور بم دھماکوں کی وجہ سے ہندو کانگریس کے خلاف ہو گئے تھے۔ اس لئے بیشتر ووٹ کانگریس کی مخالفت میں ڈالے گئے تھے۔ کانگریس حکومت کو اکھاڑ پھینکنا ہی ووٹرکا مقصد تھا۔ نتیجتاً ریاست میں کانگریس کے بعد جو سب سے طاقتور پارٹیاں تھیںوہ اقتدار میں آگئیں۔
۲۰۱۴ء میں بھی مودی حکومت کو لانے کیلئے نئے ووٹروں نے اسی جذبےکے تحت یعنی تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا۔ لوک سبھا الیکشن کے بعد اس پیٹرن کو کئی ریاستوں میں بھی دہرایا گیا۔ اب مہاراشٹر میں ٹھیک وہی صورتحال ہے جو ۱۹۹۵ء میں تھی یعنی مسلمان مہایوتی حکومت کی فرقہ پرست پالیسیوں ، اہانت آمیز حرکتوں، اور مظالم سے پریشان ہیں اور ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ، مراٹھا ، دھنگراور قبائلی طبقات جن سے ریزرویشن کا وعدہ کیا گیا تھا مگر پورا نہیں کیا گیا وہ سخت نالاں ہیں۔ مراٹھا سماج نے تو بی جے پی امیدواروں کو شکست دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار اٹھا کر دیکھ لیجئے جن علاقوں میں مراٹھا سماج کی اکثریت ہے وہاں سب سے زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ ووٹ کولہاپور میں ڈالے گئے ہیں، اس کے بعد احمد نگر، جالنہ، پھر پربھنی، ان تمام اضلاع میں ۷۰؍ فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہیں جبکہ اورنگ آباد، شولاپور، ناسک اور ناندیڑ وغیرہ میں ۶۵؍ فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ دیا ہے ۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں مسلمانوںکی آبادی زیادہ ہے۔ یعنی اگر ۱۹۹۵ء کے پیٹرن کو سامنے رکھا جائے تو یہ ووٹ تبدیلی کیلئے ڈالے گئے ہیں۔
اگر دیویندر فرنویس کی طرح یہ مان لیا جائے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد جب کبھی زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو فائدہ پہنچا ہے تب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد سے لوگ ملک میں تبدیلی ہی کیلئے ووٹ ڈال رہے تھے اور بی جے پی کو موقع دے رہے تھے لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن اب گزشتہ کچھ انتخابات کے معمول سے زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگ حکومت بدلنا چاہتے ہیں۔ اس کی شروعات لوک سبھا الیکشن سے ہو چکی ہے۔ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی حتمی رپورٹ میں جو پولنگ کی شرح میں اضافہ نظر آ رہا ہے وہ ’ہوا‘ نہیں ہے بلکہ ’ کیا گیا‘ ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ووٹنگ کی شرح میں اضافہ تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو کچھ ہی دیر میں واضح ہو جائے گا۔