اسمبلی انتخابات میں پوری ریاست میں ایک بھی سیٹ نہ جیت پانے کا نتیجہ، پارٹی اور امیدواروں کی ووٹنگ فیصد میں بھی واضح کمی نظر آئی
EPAPER
Updated: November 25, 2024, 10:52 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
اسمبلی انتخابات میں پوری ریاست میں ایک بھی سیٹ نہ جیت پانے کا نتیجہ، پارٹی اور امیدواروں کی ووٹنگ فیصد میں بھی واضح کمی نظر آئی
اسمبلی الیکشن میں انتہائی خراب کارکردگی کی وجہ سے ۲۰۰۹ء میں تشکیل دی گئی راج ٹھاکرے کی سربراہی والی ’مہاراشٹر نو نرمان سینا‘ (ایم این ایس) پارٹی کا انتخابی نشان اور ریاستی پارٹی کی حیثیت چھن سکتی ہے۔پوری ریاست میں ایم این ایس نے ۱۲۵؍ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن ایک بھی سیٹ پر ان کا امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا۔ حتیٰ کہ ایم این ایس کے بانی اور سربراہ راج ٹھاکرے کے بیٹے امیت کو بھی ماہم حلقہ انتخاب میں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہم حلقہ انتخاب میں دادر، شیواجی پارک، ماہم کولی واڑہ جیسے علاقے شامل ہیں جہاں مراٹھی رائے دہندگان کی گھنی آبادی ہے اور راج ٹھاکرے مراٹھیوں کے مسائل کو بہت زور شور سے اٹھاتے ہیں۔
اسمبلی الیکشن میں راج ٹھاکرے نے انتخابی مہم کے دوران مہا وکاس اگھاڑی اور خاص طور پر اپنے چچازاد بھائی ادھو ٹھاکرے کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ ایم این ایس نے ممبئی میں ۳۶؍ حلقہ انتخاب میں سے ۱۰؍ پر اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا جس کے سبب یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ ان ۱۰؍ سیٹوں پر مہایوتی کے امیدواروں کی مدد کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم ان سب باتوں سے انہیں الیکشن جیتنے میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔یاد رہے کہ پارٹی کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے شیوسینا (ادھو) اور این سی پی (شرد پوار) برسوں پرانا انتخابی نشان تیر کمان اور گھڑی پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔ تاہم راج ٹھاکرے سیاسی میدان میں خراب کارکردگی کی وجہ سے سیاسی نشان چھن جانے کے در پر پہنچ گئے ہیں۔
انتخابی نشان کیوں چھن سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے قواعد میں یہ بات شامل ہے کہ الیکشن لڑنے والی کوئی پارٹی اگر اپنی پارٹی کا انتخابی نشان اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تو صفر سے ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی کو کم از کم ۸؍ فیصد ووٹ ملنا چاہئے۔ اگر کوئی پارٹی ۲؍ سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے تو اس کے پاس کم از کم ۶؍ فیصد ووٹ اور ۳؍ سیٹیں جیتنے پر ۳؍ فیصد وو ٹ ہونا چاہئے۔ اس الیکشن میں ایم این ایس کو ۱ء۵۵؍ فیصد ووٹ ہی ملے ہیں۔
اگر الیکشن لڑنے والی کوئی پارٹی متذکرہ فیصد ووٹ حاصل نہیں کرپاتی تو اسے اس کا موجودہ انتخابی نشان رکھنے کا اختیار نہیں اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے آزاد امیدواروں کیلئے مختص کئے گئے انتخابی نشانوں میں سے کوئی نشانی چننا پڑے گی۔ ایم این ایس کے ترجمان سندیپ دیشپانڈے نے انتخابی نشان اور ریاستی پارٹی کی حیثیت دائو پر لگی ہونے کے تعلق سے کہا کہ ’’اس سلسلے میں ہم اپنی قانونی ٹیم سے مشورہ کریں گے۔‘‘
اب تک کی کارکردگی
اسی سال اسمبلی الیکشن سے پہلے ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ایم این ایس نے ’این ڈی اے‘ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا ایک بھی امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا۔
۲۰۰۹ء میں پارٹی کے قیام کے بعد ایم این ایس نے پوری ریاست میں ۱۴۳؍ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور اس کے ۱۳؍ امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس سال پارٹی کو کُل ۵ء۷۱؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں اس نے ۲۱۹؍ سیٹوں پر اور ۲۰۱۹ء میں ۱۰۱؍ سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا لیکن ان دونوں الیکشن میں اس کے ایک ایک ہی امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں ایم این ایس کے ووٹوں کا فیصد کم ہوکر ۳ء۱۵؍ اور ۲۰۱۹ء میں مزید گھٹ کر ۲ء۲۵؍ فیصد پہنچ گیا تھا جبکہ اس سال یہ محض ۱ء۵۵؍ فیصد پر سمٹ گیا ہے۔
راج ٹھاکرے کی رہائش گاہ پر میٹنگ
اس دوران پیر کو راج ٹھاکرے کی رہائش گاہ پر ایم این ایس لیڈران کی میٹنگ طلب کی گئی تھی جس میں الیکشن میں ناکامی کی وجوہات پر گفتگو ہوئی۔
ذرائع کے مطابق میٹنگ میں چند لیڈران نے کہا کہ اگر وہ مہایوتی سے صرف ہمدردی ظاہر کرنے اور تنہا الیکشن لڑنے کے بجائے مہایوتی سے اتحاد کرکے باقاعدہ اس کا حصہ بن گئے ہوتے تو شاید راج ٹھاکرے کے بیٹے امیت اور دیگر چند اہم لیڈران انتخاب جیت گئے ہوتے۔