جن آروگیہ ابھیان کے رپورٹ میں حکومت کی کارکردگی کو ۱۰۰؍میں سے ۲۳؍مارکس دیئے گئے ۔ ناکافی فنڈ ، عارضی عملے پر انحصاراور منصوبہ بندی کی کمی رہی۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 1:35 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
جن آروگیہ ابھیان کے رپورٹ میں حکومت کی کارکردگی کو ۱۰۰؍میں سے ۲۳؍مارکس دیئے گئے ۔ ناکافی فنڈ ، عارضی عملے پر انحصاراور منصوبہ بندی کی کمی رہی۔
ممبئی : اسمبلی الیکشن سے قبل جن آروگیہ ابھیان کے تحت غیر سرکاری تنظیموں اور ہیلتھ پروفیشنلز کے اشتراک سے صحت عامہ سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں مہاراشٹر کےصحت کےشعبوں پر خامیوں اور کمیوں کا الزام عائد کیاگیا ہے۔صحت عامہ کے شعبوںمیں حکومت کی کارکردگی کو ۱۰۰؍ میں سے ۲۳؍مارکس دیئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناکافی فنڈ ، عارضی عملے پر انحصاراور منصوبہ بندی کی کمی رہی۔اس بارے میں ایک سرکاری اسپتال کے سابق ڈین نے بھی حکومت پر تنقید کی ہے۔
مہاراشٹر، صحت عامہ پرکئے جانے والے اخراجات میں سب سے نیچے ہے جو اس کی جی ڈی پی کا صرف ۴ء۲؍فیصد ہے اور صحت عامہ کی دیکھ ریکھ کیلئے تجویز کردہ ۸؍فیصد سے بھی کم ہے ۔ قومی سطح پر صحت کے اخراجات فی کس اوسطاً ۲؍ہزار ۳۴۲؍روپے ہے لیکن مہاراشٹر میں یہ اخراجات ایک ہزار ۹۷۹؍روپے ہے جو کہ ملکی سطح پرصحت کے فی کس اخراجات کےمقابلہ میں کم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیشنل ہیلتھ مشن کے مطابق ۳۱؍ہزار سے زیادہ طبی ملازمین عارضی معاہدے پر خدمات پیش کر رہےہیں جن میں سے بیشتر ملازمین گزشتہ ۱۰؍سال سے مبینہ طورپر عارضی معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔
مہاتما جیوتی با پھلے جن آروگیہ اسکیم میں بجٹ کی مزید کمیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جس میں مبینہ طورپر ۲۴-۲۰۲۳ء میںجو فنڈ ۸؍ کروڑ روپے تھا، اسے کم کر کے ۲۵-۲۰۲۴ء میں ۶ء۲۷؍ کروڑروپے کر دیا گیا ہے ۔رپورٹ میں بڑے پیمانے پر نجکاری پر بھی تنقید کی گئی ہے جس میں ایمبولنس خدمات کیلئے ۸؍ ہزار کروڑروپے کے آئوٹ سورس کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ضلعی اسپتالوں کی مبینہ نجکاری بھی شامل ہے ۔رپورٹ میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ دیہی اسپتالوں میں ۶۱؍ فیصد اسامیاں خالی ہیں اور شہری علاقوں میں صحت عامہ کی دیکھ ریکھ کا بنیادی ڈھانچہ ناکافی ہے۔
رپورٹ میں صحت عامہ کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی اور الزام لگایا گیا کہ ۵۴؍ فیصدخواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ بہت سے پرائمری ہیلتھ سینٹرس میں ڈیلیوری کی سہولیات نہیں ہیں ۔ آدیواسی علاقوں میں حاملہ خواتین کیلئے سونوگرافی تک کی سہولت نہیں ہے ۔
رپورٹ نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مہاراشٹر میں صحت کی مربوط پالیسی کا فقدان ہے، اس کے بجائے محدود اثرات کے ساتھ بکھری ہوئی اسکیموں پر انحصار کیا جا رہا ہے ۔کووڈ ۱۹؍ سے حاصل ہونے والے سبق کے باوجود صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کیلئے بہت کم منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ بڑھتی ہوئی نجکاری، محکمہ صحت کے اندر بدعنوانی اور کنٹریکٹ ہیلتھ ورکرس کے وسیع استعمال کی رپورٹس، جو مبینہ طور پر مریضوں کی نگہداشت اور ملازمت کے تحفظ سے سمجھوتہ کرتی ہیں، کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا۔
ممبئی کے ایک سرکاری اسپتال کے سابق ڈین سے اس بارے میں گفتگو کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ’’ میڈیکل فیکلٹی میں ان دنوں بدعنوانی عروج پر ہے جس کی وجہ سے مریضوں کے علاوہ میڈیکل اسٹوڈنٹس کا بڑا نقصان ہو رہا ہے جس کی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ گزشتہ ۵؍سال سےفل ٹائم میڈیکل ڈائریکٹر کا انتخاب نہیں کیا گیاہے ۔ابھی حال میں ریاستی حکومت نے ۱۰؍نئے میڈیکل کالج شروع کرنے کی اجازت دی ہے جن میں ممبئی کا جی ٹی اسپتال بھی شامل ہے ۔ مجموعی طور پر ریاست میں ۳۳؍ میڈیکل کالج جاری ہیں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہےکہ ان میں سے ۵۰؍فیصد کالجوں میں ڈین نہیں ہیں۔ اسی طرح دیگر طبی شعبوں میں بھی کئی مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکومت ان مسائل کوحل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے ۔‘‘