۲۳۴؍ سیٹوں پر قابض، مہاوکاس اگھاڑی کو صرف ۴۹؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا، جلد ہی وزیر اعلیٰ کا اعلان ،شرد پوار اور اُدھو ٹھاکرے کے سیاسی کریئر پر سوالیہ نشان، کانگریس کا بدترین مظاہرہ۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 10:33 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۲۳۴؍ سیٹوں پر قابض، مہاوکاس اگھاڑی کو صرف ۴۹؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا، جلد ہی وزیر اعلیٰ کا اعلان ،شرد پوار اور اُدھو ٹھاکرے کے سیاسی کریئر پر سوالیہ نشان، کانگریس کا بدترین مظاہرہ۔
دھواں دھار انتخابی مہم، سنگین الزام تراشیوں اور گزشتہ ۳۰؍ سال کی ریکارڈ توڑ پولنگ کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ مہاراشٹر میں اقتدار میں تبدیلی ہو گی اورسیکولر محاذ مہاوکاس اگھاڑی برسراقتدار آئے گا یا کم از کم ریاست کے اقتدار کے قریب پہنچ جائے گا لیکن زعفرانی محاذ مہایوتی نے بالکل غیر متوقع مگر ہر لحاظ سے تاریخی فتح حاصل کرتے ہوئے مہاراشٹر اسمبلی کی ۲؍ تہائی سے زیادہ سیٹیں حاصل کرلیں۔ مہا وکاس اگھاڑی کو محض ۴۹؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا جو مجموعی طور پر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے بھی کم ہےاور انفرادی طور تو اب یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مہاراشٹر اسمبلی کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ یہاں کوئی اپوزیشن لیڈر نہیں ہو گا۔
مہایوتی کو ۲۳۴؍ سیٹیں
۲۸۸؍ سیٹوںپر ہونے والے الیکشن میں سے مہایوتی نےزبردست اسٹرائیک ریٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے۲۳۴؍ سیٹیں اپنے نام کرلیں۔ یہ مہاراشٹر کے قیام سے لے کر اب تک ہونے والے الیکشن میں سب سے بڑی فتح ہے۔ اس فتح میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اسے ۱۳۲؍ سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی پارٹی شیو سینا کو ۵۷؍ اور اجیت پوار کی پارٹی این سی پی کو ۴۱؍ سیٹیں ملی ہیں جبکہ ۴؍ سیٹیں چھوٹی اتحادی پارٹیوں کو ملیں۔
مہا وکاس اگھاڑی ہاتھ ملتی رہ گئی
کانگریس، این سی پی (شرد) اور شیو سینا (ادھو) کے اتحاد نے لوک سبھا میں شاندار کامیابی کامیابی کے بعد ریاست میں اقتدار میں واپسی کا خواب دیکھا تھا لیکن ان کا اتحاد ۴۹؍ سیٹوں پر ہی سمٹ گیا۔ اس میں شیو سینا (ادھو ) کو ۲۰؍ ، کانگریس کو ۱۶؍ ، این سی پی (شرد) کو۱۰؍ سیٹیں، سماج وادی پارٹی کو ۲؍ سیٹیں حاصل ہوئیں جبکہ سی پی آئی کو ایک سیٹ ملی۔ حالانکہ کانگریس پارٹی اور اس کے اتحاد کو حکومت مخالف لہر کا فائدہ ملنے کا پورا پورا یقین تھا لیکن جب نتیجے آئے تو تینوں پارٹیوں کے خیموں میں شدید مایوسی کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ کسی بھی پارٹی کو اس طرح کےیکطرفہ نتائج کی توقع بالکل نہیں تھی۔
وزارت اعلیٰ کیلئے کھینچ تان شروع ہو گئی
نتائج کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ وزیر اعلیٰ بی جے پی کا ہی ہونا چاہئے۔ اس پر شیو سینا سربراہ اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے `لینڈ سلائڈ فتح پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سب کچھ واضح ہوجانے کےبعد تینوں پارٹیاں مل کر وزیر اعلیٰ طے کریں گی۔ زیادہ سیٹیں مل جانے سےوزارت اعلیٰ پر دعویداری نہیں ہوجاتی۔ دریں اثناء اس معاملے میں بی جے پی کے لیڈران مسلسل یہ بیان دےرہے ہیں کہ دیویندر فرنویس کو ہی وزیر اعلیٰ بننا چاہئے کیوں کہ انہی کی قیادت میں بی جے پی کو بہت بڑی فتح ملی ہے ۔ حالانکہ بعد میں تینوں پارٹیوں کے لیڈروں کی مشترکہ کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ بہت جلد وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کرلیا جائے گا۔ واضح رہے کہ تینوں ہی پارٹیوں کو جلد فیصلہ کرنا ہو گا کیوں کہ مہاراشٹر اسمبلی کی مدت ۲۶؍ نومبر تک ہی ہے۔ اس سے قبل ہی حکومت سازی ہوجانی چاہئے ورنہ ریاست میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔
ایکناتھ شندے پر شدید دبائو
واضح رہے کہ اس وقت ایکناتھ شندے بالکل اسی پوزیشن میں ہیں جس میں ۲۰۱۹ء میں ادھو ٹھاکرے تھے۔ اس وقت بھی بی جے پی نے وعدہ کرنے کے باوجود وزارت اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی پارٹی کو دینے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد مہاوکاس اگھاڑی وجود میں آئی تھی ۔ اِس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے کیوں بی جے پی اب بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور یہ دبائو بنایا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بی جے پی سے ہی ہو جبکہ انتخابی مہم کے دوران تینوں پارٹیاں یہ واضح کرچکی تھیں کہ الیکشن ایکناتھ شندے کی قیادت میں ہی لڑا جارہا ہے۔
کیا لاڈلی بہن اسکیم کا فائدہ ملا ؟
لوک سبھا انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد مہایوتی حکومت نے ’گیم چینجر‘ کے طور پرلاڈلی بہن اسکیم متعارف کروائی۔ یہ اسکیم مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو بہت بڑی کامیابی دلاچکی تھی اور توقع یہی تھی کہ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی نیّا یہی اسکیم پار لگائے گی۔ حالانکہ ابتدا میں مہا وکاس اگھاڑی نے اس اسکیم کی شدید مخالفت کی اور اسے ریاست کو قرض میں ڈبونے والی اسکیم بھی قرار دیا لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایم وی اے کے لیڈران اس اسکیم کی مقبولیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے میں مات کھا گئے کیوں کہ توقع کے مطابق پوری ریاست سے ہزاروں خواتین نے مہایوتی کو ووٹ دے کر ا س اسکیم کی اہمیت کو واضح کردیا۔
اگزٹ پول ایک مرتبہ پھر غلط ثابت ہوئے
مہایوتی نے ایک مرتبہ پھر تمام اگزٹ پول کو غلط ثابت کرتے ہوئے بھاری جیت حاصل کی ہے۔ بی جے پی اتحاد نے جتنی بڑی فتح حاصل کی ہے اس کی توقع تو خود بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو بھی نہیں تھی ۔ اگزٹ پول میں سے کسی نے بھی بی جے پی اتحاد کیلئے ۲؍ سو سے زائد سیٹوں کی پیش گوئی نہیں کی تھی لیکن جب نتیجے آئے تو مہایوتی نے ۲؍ تہائی سے زائد سیٹیں حاصل کرلیں۔
کیا نعروں کا بھی رول رہا ؟
بی جے پی کی جانب سے دئیے گئے مختلف نعرے جن میں’’بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘، اور ’’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ کا بھی رول بتایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان نعروں کی مخالفت کئی حلقوں میں ہوئی لیکن یہ زبان زد خاص و عام ہو گئے تھے اور پارٹی کے باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نعروں کا بھی ایک خاص اثر رہا جس کی وجہ سے مہایوتی کو بہت بڑی فتح حاصل ہو ئی۔