محض ۱۹؍ سال کی عمر میں ۴۰۰؍ زبانیں لکھ ، بول ، پڑھ اور ٹائپ کرسکتے ہیں، ان کے والد عبد الحمید ماہر لسانیات ہیں اور خود ۱۶؍ زبانیں جانتے ہیں
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 10:53 PM IST | Chennai
محض ۱۹؍ سال کی عمر میں ۴۰۰؍ زبانیں لکھ ، بول ، پڑھ اور ٹائپ کرسکتے ہیں، ان کے والد عبد الحمید ماہر لسانیات ہیں اور خود ۱۶؍ زبانیں جانتے ہیں
آسامی ، بنگالی ، ہندی ، ڈوگری ، تمل ، تیلگو ، اُردو،اڑیہ ، نیپالی ،عربی ، چینی ،بلوچی ،انگریزی ، جرمن ، فرانسیسی ، عبرانی اور ایسی ۴۰۰؍ زبانیں جاننے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے والے نوجوان محمود اکرم کی پوری دنیا میں پذیرائی ہو رہی ہے۔ محمود اکرم کا تعلق تمل ناڈو کے شہر چنئی سے ہے جبکہ ان کا آبائی وطن تمل ناڈو کا ضلع رامناتھ پورم ہے۔ ان کے والد عبد الحمید بھی ایک معروف ماہر لسانیات ہیں اور’موزی پرین ‘ (زبانوں کا ماہر یا محب زبان ) کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ وہ خود بھی ۱۵؍ سے زائد زبانیں جانتے ہیں۔ اپنے والد کے سائے میں ہی محموداکرم نے بھی زبانوں کو پڑھنا ،لکھنا اور سمجھنا شروع کیا۔ جب وہ محض ۸؍ سال کے تھے تب تک ۵۰؍ سے زیادہ زبانیں سیکھ چکے تھے جبکہ اب وہ ۱۹؍ سال کے ہیں اور ان کی سیکھی ہوئی زبانوں کی تعداد ۴؍ سو کو پار کرچکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ محمود اکرم صرف زبانیں جانتے ہیں بلکہ وہ ان زبانوں میں لکھنا ، پڑھنا ، بولنا اور یہاں تک کہ کمپیوٹر پر ٹائپ کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی صلاحیت سے پوری دنیا انگشت بدنداں ہےکیوں کہ نہ ماضی میں اور نہ موجودہ وقت میں اتنی زیادہ زبانیں جاننے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے۔محمود کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سے لےکر دیگر متعدد عالمی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔
عبدالحمید موزی پرین نےبتایا کہ ’’جب میں مختلف ممالک جاتا تھا تو وہاں کی زبان نہ جاننے کی وجہ سے مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔‘‘ عبد الحمید کے مطابق مجھے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ محمود اتنی زیادہ زبانیں اتنی آسانی کے ساتھ اور وہ بھی اتنی کم عمر میں سیکھ لے گا ۔ وہ زبانوں کے معاملے میں غیر معمولی صلاحیت ہے اور یہ بات مجھے اسی وقت سمجھ میں آگئی تھی جب اس نے بہت کم عمری میں ۵۰؍سے زائد زبانیں سیکھ لی تھیں۔
محمود اکرم نے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ جب میں ۴؍ سال کا تھا تب میرے والدین نے مجھے انگریزی اور تمل سکھانا شروع کیا۔ میں نے محض ۶؍ دن میں انگریزی کے حروف تہجی اور محض ۲؍ ہفتوں میں تمل زبان کے حروف تہجی کو ازبر کرلیا تھا۔ جب تک میں ۶؍ سال کا ہوا میں نے اپنے والد کو زبانیں سیکھنے کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ میں ان سے زیادہ زبانیں بولنے لگا تھا ۔ اسی وجہ سے میرے والد نےمجھے مزید زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی جو میرے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔واضح رہے کہ محمود اکرم نےمختلف زبانوں کی کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ’اومنی گلو ٹ‘ نامی زبانوں کے انسائیکلو پیڈیا سے بھی مدد لی جو آن لائن دستیاب ہے۔ اس پر زبان لکھنے ،پڑھنے اور ٹائپ کرنے میں بھی مدد کی جاتی ہے۔
اتنی چھوٹی سی عمر میں محمود اکرم نےمتعدد ریکارڈ اپنے نام کرلئے ہیں۔ ۸؍ سال کی عمر میں انہوں نے سب سے کم عمر ملٹی لنگول ٹائپسٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا ۔ ۱۰؍ سال کی عمر میں محمود نےملک کا قومی ترانہ محض ایک گھنٹے میں ۲۰؍ زبانوں میں لکھنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ۱۲؍ سال کی عمر تک انہوں نے ۴۰۰؍ زبانیں سیکھ لی تھیں اور اب تو وہ ان زبانوں کے ماہرین کو بھی ٹکر دے سکتے ہیں۔محمود اکرم کے مطابق جرمنی میں انہوں نے ۱۲؍سال کی عمر میں عالمی خطاب جیتا تھا ۔ اس مقابلے میں انہوں نے ۷۰؍ زبانو ں کے عالمی اور مستند ماہرین کو شکست دیتے ہوئے ایک منٹ میں ایک جملے کو ۴۰؍ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا تھا ۔انہوں نے اسے اپنا اب تک کا سب سے کامیاب مقابلہ قرار دیا۔ فی الحال محمود اکرم ایک ساتھ متعدد عالمی یونیورسٹیوں سے زباندانی کی پڑھائی کررہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یورپ کے عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارہ سے اپنی اسکولی اور کالج کی تعلیم مکمل کررہے ہیں۔محمود کے والد نے کچھ برس قبل چنئی میں گلوبل لینگویج انسٹی ٹیوٹ قائم کی ہے جس میں ان کی اہلیہ امینل بیگم بھی پڑھاتی ہیں اور اکثر محمود بھی دونوں کا ساتھ دینے پہنچ جاتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان مختلف زبانیں سیکھیں۔