• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

محوی ارشد یونس: مالیگاؤں کے ایک قابل ٹیچر جنہوں نے سبکدوشی کے بعدعالمیت مکمل کی

Updated: February 22, 2025, 2:17 PM IST | Azhar Mirza | Malegaon

وہ مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈجونیئر کالج میں کیمسٹری پڑھاتے تھے، ۲۰۱۲ء میں سبکدوش ہوئے، ۲۰۲۱ء میں مدرسہ عثمانیہ کے شعبہ عالمیت میں داخلہ لیا تھا، اسی ماہ ۱۰؍فروری کو ان کا انتقال ہوا۔

Mahvi Arshad Muhammad Yunus late who was one of the best chemistry teachers of Malegaon. Photo: INN
محوی ارشدمحمد یونس مرحوم جن کا شمار مالیگاؤں کے بہترین کیمسٹری ٹیچرز میں ہوتا تھا۔ تصویر: آئی این این

مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے ارشد محوی سر جن کا اسی ماہ ۱۰؍فروری کو انتقال ہوا، کی قابل ذکر حصولیابی یہ تھی کہ انہوں نے سبکدوشی کے بعد عالمیت مکمل کی تھی۔ انہوں  نے عالمیت کا یہ کورس پچھلے سال مکمل کرکے ثابت کردیا کہ ’’سیکھنے کی کوئی عمر نہیں  ہوتی۔ ‘‘وہ پیشہ تدریس سے سبکدوشی کے بعد ’طالب علم‘ بن گئے تھے۔ ان کی یہ حصولیابی انوکھی ہی تھی کہ عمر کی ۷۰؍ ویں بہار میں  انہوں  نے عالمیت کا کورس مکمل کیا جبکہ یہ عمر ریٹائرڈ افراد کے لئے آرام کی عمر سمجھی جاتی ہے۔ مختلف مصروفیات اور طبیعت کی ناسازی کو بھی انہوں  نے حصول علم کی راہ میں  رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ ان کا یہ علمی سفر مزید آگے بڑھتا لیکن مرضی مولیٰ کچھ اور تھی۔ 
 ان کے فرزند سعد محوی نے نمائندہ انقلاب کوبتایا کہ ’’ادھر کچھ ماہ میں ابّو کے آنکھ کے عارضہ نے شدت اختیار کرلی تھی اورانفیکشن دماغ تک جاپہنچا تھا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں   اورنگ آباد کےنجی اسپتال میں ان کا آپریشن بھی کروایا گیا جو الحمد للہ کامیاب بھی رہالیکن پھر شدید دورہ قلب کے سبب وہ مالک حقیقی سے جاملے۔ ‘‘ سعد نے مزید کہا کہ ’’ابّو کا ریٹائرمنٹ کے بعد عالم بننا یقیناً بہت سوں کیلئے ترغیب و تحریک کا باعث بنے گا، انہوں  نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ محنت اور چاہت ہو تو ہر عمر میں  سب کچھ ممکن ہے۔ ‘‘
کیمیکل انجینئرسےٹیچربننے کا سفر
 مولوی محوی ارشد ابن محمد یونس کیمسٹری پڑھاتے تھے۔ ان کا شمار اس مضمون کے ماہر اساتذہ میں ہوتا تھا۔ انہوں نے مالیگاؤں  ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں تقریباً  ۳۰؍ برس تک درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ ۲۰۱۲ء میں سبکدوشی کے وقت وہ اسسٹنٹ  ہیڈماسٹر کے عہدہ پر تھے۔ ان کی تعلیمی لیاقت بی ایس سی ٹیک، ایم اے اور ایم اے ایڈ تھی۔ پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات مفت لال انڈسٹریز( ممبئی) سے کی تھی، جہاں   وہ کیمیکل انجینئر تھے لیکن انہیں شعبہ تدریس میں زیادہ سکون ملا۔ 
 وہ کہتے تھے:ابھی آسماں اور بھی ہیں 
ارشد سر کے سانحہ ارتحال پر ان کے شاگرد حذیفہ ہدائی نےفیس بک پر یہ لکھا تھا: ’’ارشد سرمرحوم مالیگاؤں جونیئر کالج میں ہمارے کیمسٹری کے استاذ تھے۔ ان کا اندازِ تدریس، محبت بھرا رویہ اور شاگردوں کیلئے خلوص بہت اعلیٰ و ارفع تھا۔ ہمیشہ نرمی اور شفقت سے پیش آتے، ان کی گفتگو سراپا حوصلہ افزا ہوتی۔ جب بھی ملاقات ہوتی، مسکرا کر خیریت دریافت کرتے، مشورے دیتے۔ ان کا ایک جملہ جو ہماری سماعتوں میں گونجتا رہے گا:’’ابھی آسماں اور بھی ہیں!‘‘

 انہوں نے شاد آدم ٹیکنیکل کالج( بھیونڈی) میں لیکچرارشپ کی۔ ۱۹۸۳ء میں مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے وابستہ ہو گئے۔ 
ایک سبکدوش ٹیچر کیسے ’مولوی‘ بنے؟
 ارشد سر نے سبکدوشی کےبعد بھی حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ ایک طالب علم کی طرح حصول علم میں  لگ گئے تھے۔ یہی شوق و جذبہ تھا کہ ۲۰۲۱ء میں انہوں نے مالیگاؤں کے مدرسہ عثمانیہ کے عالمیت کےکورس میں  داخلہ لیا اور ۲۰۲۴ء میں  فارغ ہوئے۔ اسکے بعد انہوں  نے’ تخصص فی الحدیث‘  میں  داخلہ لیاتھا۔ مدرسہ ھٰذا کے نگراں  مولانا ہلال احمدمولانا محمد عثمان المعروف بہ ہلال سر نے بتایا کہ ’’ارشد سرنے ۲۰۲۱ء میں  ہمارے مدرسہ کے شعبہ عالمیت میں   درجہ سوم میں داخلہ لیا تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ۱۹۸۶ء میں عالمیت کی ابتدائی دو جماعتیں (عربی اول دوم) پڑھ چکے تھے۔ ‘‘انہوں  نے مزیدکہا کہ’’ارشد سر میرے عزیز دوست تھے، ہم ایک ہی محلے (نیاپورہ) کے تھے، ہم نے کالج کی تعلیم (بی ایس سی) بھی ساتھ ہی حاصل کی۔ انہی دنوں  میں  ہم مدرسہ تقویت الاسلام (انگنو سیٹھ کے ملّے کی مسجد) میں  عالمیت کی پڑھائی بھی کرتے تھے۔ وہاں   ندوۃ العلماء کے سابق شیخ  الحدیث مولانا عبدالستار اعظمی (مرحوم)درس دیا کرتے تھے۔ ‘‘
’’ہر مضمون میں ان کے۷۰؍فیصد سے زائد نمبر تھے‘‘
 انہوں  نے ارشد سر کے علمی سفر کے متعلق مزید بتایا کہ ’’مارچ ۲۰۲۴ء میں  وہ عالمیت سے فارغ ہوئے۔ سبھی ہم جماعتوں  کے ساتھ ان کی کارکردگی بھی شاندار رہی اور تقریباً ہر مضمون میں  ان کے ۷۰؍ فیصدسے زائد نمبر تھے۔ ‘‘ ہلال سر نے بتایا کہ’’ اس وقت ہم نے ارادہ ظاہر کیاکہ ہم اپنے مدرسہ میں  تخصص فی الحدیث کا شعبہ شروع کررہے ہیں جس طرح دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپوراور دیگر بڑے اداروں میں قائم ہے۔ ہم نے وہیں  سے اس کا نصاب منگوایا۔ حسن اتفاق یہ تھا کہ اس وقت مفتی آصف عزیز قاسمی مالیگانوی جو جنوبی افریقہ میں جامعہ شیخ زکریا میں  پڑھاتے ہیں، مالیگاؤں  آئے ہوئے تھے، انہوں  نے تخصص فی الحدیث کی تدریس کا ذمہ اٹھایا اور بڑی محنت و جانفشانی سے اس کام کو انجام دیا۔ ‘‘
 ہلال سر نے مزید بتایا کہ ’’چونکہ تخصص الحدیث میں   نصاب کے ساتھ ساتھ کئی (تحقیقی)  کام ہوتے ہیں، لہٰذا انہوں  نے طلبہ کو مختلف کام دئیے، ابھی تعلیمی سال مکمل بھی نہیں  ہوا اورارشد سراور اُن کے ہم جماعتوں  نے دلجمعی سے دئیے گئے سارے کام کئے۔ ارشد سر نے مطالعہ و تحقیق کرکے ۴۰؍  راویوں  کے نام اکھٹا کئے۔ ‘‘ ہلال سر نے اپنے دیرینہ رفیق کی دینی علوم کے تئیں دلچسپی اور ان کی کارکردگی کے متعلق بتایا کہ’’ عالمیت کے دوران انہوں نے تفسیر میں خصوصی دلچسپی لی پھر جب تخصص فی الحدیث کا شعبہ شروع ہوا تو اس طرف متوجہ ہو گئے۔ حالانکہ خرابی صحت کی وجہ سے علم دین کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل تھا، لیکن اللہ پاک کا کرم اور ان کا شوق تھا کہ انہوں  نے داخلہ لیا اور ایک مشتاق طالبعلم ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا۔ ‘‘ ہلال سر نےکہا کہ’’ انہیں  علم حدیث میں  گہری دلچسپی تھی۔ صحاح ستہ کا انہوں  نے گہرامطالعہ کیا۔ ارشد سر بڑے ذہین تھے، ان کے علم کےشوق کو اس سے سمجھئے کہ وہ اپنے ہم جماعتوں  میں مثبت مقابلہ آرائی میں  پیش پیش رہتے تھے، اسپتال داخل ہونے سے ایک دن پہلے تک وہ تحصیل علم میں  لگے رہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK