امیدواروں کی خوبیاں، مدمقابل کی خامیاں،حالاتِ حاضرہ پر طنز، صنعتی شہر میں گونج رہے ان سیاسی نغمات کے مرکزی خیالات ہیں۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 3:52 PM IST | Mumbai
امیدواروں کی خوبیاں، مدمقابل کی خامیاں،حالاتِ حاضرہ پر طنز، صنعتی شہر میں گونج رہے ان سیاسی نغمات کے مرکزی خیالات ہیں۔
صنعتی شہر مالیگائوں ان دنوں پوری طرح سیاسی کارزار میں تبدیل ہوگیا ہے۔جیسے جنگ کے میدان میںسپاہیوں کے حوصلے بڑھانے اور دشمن کو اعصابی انتشار میںمبتلا کرنے کیلئے رجز پڑھے جاتے تھے ویسے ہی اسمبلی الیکشن میں اپنی خوبیاں اورمد مقابل کی خامیاں بیان کرکے، رائے دہندگان کی پوری توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کیلئے مالیگائوں میں سیاسی گیتوں اور نظموں کی دھُوم مچی ہوئی ہے۔امیدواروں نے اپنے من پسند کلام لکھوانے کیلئے مقامی شاعروں کی مدد لی جس سے شاعروں کی بھی وقتی طور پر چاندی دِکھائی دے رہی ہے۔
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے نامزد امیدوار مفتی محمد اسماعیل کی انتخابی نشانی ’پتنگ‘کی علامت کو اپنے کلام کا مرکزی خیال بناتے ہوئے معروف مترنم شاعر سہیل آزادؔ نے گیت لکھا ہے۔ آزادؔکے کلام کا یہ شعر مقبول ہورہاہے کہ:
ہے یہ گزارش سب سے میری گلدان کا سودا مت کرنا
چند سکّوں کی خاطر ایمان کا سودا مت کرنا
انڈین سیکولرپارٹی کے شیخ آصف کے حق میں ماحول سازی کیلئے ایک گیت ’ماحول بدلنے والا ہے ‘بجایا جارہاہے ۔سماج وادی پارٹی سے قسمت آزمارہیں شانِ ہند کیلئےکہنہ مشق شاعر خالد انورؔ نے انتخابی نغمہ لکھا ہے،جس کے بول ہیں:
مَیں صاحب کی بیٹی ہوں،سائیکل میری نشانی
کانگریس سے پہلی مرتبہ اسمبلی الیکشن میں اُترے اعجاز بیگ کی کامیابی کیلئے مزدور وں کے نمائندہ شاعررفیق سرورؔ نے
اب کی بار اعجاز بیگ کو اسمبلی پہنچانا ہے
پنجے کا بٹن دباکر پنجے کو چُن کر لانا ہے‘
کلام لکھا ہے۔مالیگاؤں میں الیکشن چاہے مقامی ہوں ،صوبائی ہوں یا قومی، مقامی شاعروں کے لکھے ہوئے سیاسی نغمات نے امیدواروں کے لئے ماحول سازی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ایک زمانہ تھا اسمبلی الیکشن میںجب نہال احمد (مرحوم )کےلئے انیس نیّر تو حاجی شبیر احمد کیلئے فاروق راہی ؔکے کلام مقبول ہوئے۔
مایگائوں کےسابق رکن اسمبلی شیخ رشید(مرحوم)کیلئے خالد انورؔ کا گیت مالیگائوں ہی نہیںبلکہ ملک کے مختلف صوبوں میں کانگریس پارٹی نے بجایا ۔گرچہ جدید ذرائع انتخابی تشہیر میںلازم ہوچکے ہیںلیکن مالیگائوں کے سیاسی کارزار میں ادبی روایات آج بھی برقرار ہیں۔ دورِماضی کے شاعروں نے اپنے سیاسی نظریات کو شعری روایات کا حصہ بنایا ۔نقد ونوازشات سے بے نیاز رہتے تھے۔فی زمانہ اس کے برعکس ہے۔سیاسی ماحول میں پروفیشنل ازم حاوی دِکھائی دے رہا ہے۔