۲۲؍ فروری کو شہر کے دریگاؤں شیوار میں غلط سمت سے آرہی یارن بردارٹرک پوری طرح آٹو رکشے پر پلٹ گئی، جس میں صبا اور علقمہ نامی طالبات اورڈرائیور عبدالکلام کی روح جائے وقوع پرہی قفس عنصری سے پرواز کرگئی تھی۔
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 5:49 PM IST | Malegaon
۲۲؍ فروری کو شہر کے دریگاؤں شیوار میں غلط سمت سے آرہی یارن بردارٹرک پوری طرح آٹو رکشے پر پلٹ گئی، جس میں صبا اور علقمہ نامی طالبات اورڈرائیور عبدالکلام کی روح جائے وقوع پرہی قفس عنصری سے پرواز کرگئی تھی۔
گزشتہ ۲۲؍فروری کو مالیگائوں کے درے گائوں شیوار میںرونما ہوئے دِلدوز سانحہ کے مہلوکین کوچشم پُرنم کےساتھ سپردلحد کردیا گیا۔اس واقعے سے غم واندوہ کا ماحول اب تک برقرار ہے۔متوفین کے جلوس جنازہ میں کثیر تعداد میں عامتہ المسلمین نے شرکت کی۔
’’بیٹی کواعلیٰ تعلیم دلانے کا خواب تھا‘‘ متوفیہ صباکوثر محمد یوسف میمن (۲۰) کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ رائل کالج(عبدالمطلب کیمپس) میں فارمیسی فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔اس سے چھوٹی ایک بہن اور ایک بھائی ہے۔ دو بہنوں،ایک بھائی اور ماں باپ پر مشتمل یہ خاندان مالیگائوں میں میمن برادری کے تعلیم یافتہ گھرانوں میںسے ایک ہے۔ صبا مرحومہ کے والدمحمد یوسف میمن پلاسٹک پگھلاکر مختلف اشیاء سازی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔اُن کا خواب تھا کہ بیٹی کو اعلیٰ تعلیم اور ڈگری دِلا کراس کا مستقبل محفوظ کریں گے۔ صبا کے والدین صدمے سے نڈھال ہیں۔چھوٹی اور بھائی بھی سسک سسک کر رورہے ہیں۔ہنستا کھیلتاگھرانہ یک لخت ماتم کدے میںبدل گیا۔۲۲؍ فروری کی شام میںصبا کی لاش گھرلائی گئی۔گلاب پارک میں واقع مکان سے جلوس جنازہ عائشہ نگرقبرستان پہنچا۔عشاء کے بعد اُس کی تدفین عمل میں آئی۔
بیوہ ماں کا سہارا تھی علقمہ
یارن سے لدی ٹرک جس رکشے پر پلٹی اُس میں علقمہ مختار خان (۲۴)بھی سوار تھی ۔اُس کے والد مختار خان کا انتقال ہوگیا ہے۔والدہ ،جسے اہل محلّہ بانو آپا کے نام سے پکارتے ہیں،کےساتھ بیوگی کادردپہلے سے لگاہواہے۔مختارخان مرحوم کی تین بیٹیوںمیںعلقمہ سب سے بڑی بیٹی اور سب سے چھوٹا ایک بیٹاجو جسمانی طورسے معذور ہے۔علقمہ کی ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول میں ہوئی۔ہائی اسکول کےبعداُس نے سائنس فیکلٹی سے جونیئرکالج میںنمایاں کامیابی حاصل کی۔میرٹ کی بنیاد پراُسے الامین بی یو ایم ایس میڈیکل کالج(عبدالمطلب کیمپس)میں داخلہ مل گیا۔علقمہ بی یو ایم ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔اُس کے انتقال کی اطلاع اہل خانہ پر بجلی کی طرح گری۔والدہ کو پاس پڑوس کی خواتین نے اب تک سنبھالے رکھا ہے۔دوبہنیں اور معذور بھائی تعزیت کیلئے آنے والوںکی گود یا کاندھے پر سر رکھ کر روتے ہیں۔ ۲۲؍ فروری ،سنیچرکومغرب کے بعد شہید عبدالحمید روڈپر واقع نندن نگرسے جلوس جنازہ عائشہ نگرقبرستان پہنچا۔میت کو آخری منزل تک پہنچانے کیلئے کثیر تعداد میںلوگ دیکھے گئے۔
عبدالکلام شہر میں ہی رکشا چلاتے تھے لیکن اس دن...
عبدالکلام کا پیشہ رکشا ڈرائیونگ تھا۔شہری حدود میںہی رکشے کے ذریعے مسافروں کولاتے لیجاتے تھے۔ ہائی وے پر چلنے والے آٹو ڈرائیوروں کی طرح وہ نہیں تھے۔ان کے شناسائوں نے بتایا کہ۲۲؍فروری کو عبدالکلام اپنا رکشا لے کر فاران اسپتال کےپاس کھڑے تھے کہ ان کے پاس برقعہ پوش چار لڑکیاں آئیں اور عبدالمطلب کیمپس جانے کیلئے کہنے لگی۔عبدالکلام نے صرف اس لئے ہاں کہہ دیا کہ وہ چاروں لڑکیاں برقعے میں تھیں اور کالج جانے کیلئے کرائے میں کمی بیشی کے بغیرجانے کیلئے کہہ رہی تھیں۔انہوں نے رکشے میںچاروں کو بیٹھایا اورعبدالمطلب کیمپس کی طرف روانہ ہوئے۔درےگائوںشیوارکے چڑھان والے راستے سے ہائی وے کی طرف بڑھ رہےتھےکہ سامنے سے آرہی یارن بردارٹرک پوری طرح رکشے پر پلٹ گئی۔صبا اور علقمہ کے ساتھ عبدالکلام کی روح بھی جائے وقوع پرہی قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔عبدالکلام اب اِس دنیا میں نہیں لیکن اُن کی اہلیہ اور ۴؍بچے ہیں جن کی کفالت اور پرورش اہل خانہ ، پڑوسیوںاور معاشرے کو دعوتِ فکر دے رہی ہے۔انہیں مالیگائوں کے بڑے قبرستان میںدفنایا گیا۔عشاء کی نماز کے بعدجلوس جنازہ اقصیٰ کالونی سے روانہ ہونے لگاتولواحقین وپسماندگان کے گریہ وبَین نے کلیجے دہلادئے تھے۔
اس سانحہ پر عبدالمطلب کیمپس کے روح رواں الحاج شیخ رضوان اور شیخ ریحان نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ’’ طالبات کے ساتھ پیش آئے حادثے سے پورے کیمپس میں غم و اندوہ کا ماحول ہے۔ہمارے اساتذہ ،طلبہ اور اراکین انتظامیہ نے متوفین کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی۔ مرحومین کیلئے انفرادی واجتماعی طور سے دعائیں بھی مانگی گئیں۔ رب العالمین مرحومین کی مغفرت فرمائے۔اہل خانہ کو صبر جمیل اور بہترنعیم البدل عطافرمائے۔آمین‘‘