پہلے ملک کے نائب صدر نے سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا پھربی جے پی کے اراکین پارلیمان نشی کانت دوبے اور دنیش شرما نے چیف جسٹس پر سنگین الزامات عائد کئے، اپوزیشن سخت برہم، سوچی سمجھی سازش قراردیا۔
EPAPER
Updated: April 21, 2025, 9:46 AM IST | New Delhi
پہلے ملک کے نائب صدر نے سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا پھربی جے پی کے اراکین پارلیمان نشی کانت دوبے اور دنیش شرما نے چیف جسٹس پر سنگین الزامات عائد کئے، اپوزیشن سخت برہم، سوچی سمجھی سازش قراردیا۔
وقف ترمیمی ایکٹ کے کئی پہلوؤں کے نفاذ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ روک لگادیئے جانے کے بعد ملک کا ایک مخصوص طبقہ اِس بری طرح بوکھلاگیا ہے کہ اس نے عدلیہ کو ہی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے اختیارات تک کو چیلنج کیا جانے لگا ہے۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں موجود چند عناصر اور اہم عہدوں پر فائز افراد بھی چیف جسٹس آف انڈیا اور عدلیہ کو نشانہ بنارہے ہیں۔ پہلے وقف ترمیمی ایکٹ پر سماعت سے قبل اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یہ امید ظاہر کرتے ہوئے کہ ’’ سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا‘‘ بند لفظوں میں یہ دھمکی دے ڈالی کہ ’’ اگر کل کو حکومت عدلیہ میں مداخلت کرتی ہے تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔ ‘‘ اس کے بعد ۱۷؍ اپریل کو نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے عدلیہ پر نہ صرف اپنی حد سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کیا بلکہ اس کے اختیارات کو بھی چیلنج کردیا۔ اس پر اپوزیشن کی جانب سے مذمت ہوہی رہی تھی کہ سنیچر کو بی جےپی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈ یا پر چہرہ دیکھ کر فیصلہ سنانے اور ملک میں مذہبی جنگ کو ہوا دینے کا سنگین الزام عائد کردیا۔ ان کے ساتھ ہی راجیہ سبھا کے رکن دنیش شرما نے اپنےبیان کے ذریعہ عدالت کی حد طے کرنے کی کوشش کی۔
بی جےپی نے پلہ جھاڑا مگر کارروائی نہیں کی
سپریم کورٹ کے خلاف نشی کانت دوبے کے بیان پر ہنگامہ کے بعد بی جےپی نے سنیچرکو ہی اس سے اپنا پلہ یہ کہہ کر جھاڑ لیا کہ یہ اراکین پارلیمان کا ذاتی موقف ہے۔ زعفرانی پارٹی کے رخصت پزیر صدر جےپی نڈا نے کہا ہے کہ ’’عدلیہ اور چیف جسٹس کے تعلق سے نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے بیان سے بی جےپی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ان کے ذاتی بیانات ہیں۔ بی جےپی نہ ان بیانات متفق ہے اور نہ ہی کبھی ایسے بیانوں کی تائید کرتی ہے۔ بی جےپی انہیں پوری طرح سے خارج کرتی ہے۔ ‘‘اہم بات یہ ہے کہ زعفرانی پارٹی نے اپنے لیڈروں اور اراکین پارلیمان کےبیانوں سے پلہ تو جھاڑ لیا ہے مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بس یہ کہہ کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی کہ دونوں لیڈروں کو اور پارٹی کے دیگر اراکین کو ایسے بیانات سے گریز کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
وزیراعظم پر خاموش تائید کا الزام
اپوزیشن نے اس پر وزیراعظم مودی کی خاموشی کو ان کی خاموش تائید سے تعبیر کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے مذکورہ بیانات سے خود کو الگ کرنے کے بی جے پی کے عمل کو ’’ڈیمیج کنٹرول‘‘ کی کوشش قراردیا۔ کانگریس لیڈر مکل واسنک نے کہا ہے کہ ان دونوں کے خلاف جو سب سے کم کارروائی ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں پارٹی سے نکال باہر کیا جائے۔ کانگریس نے سوال کیا کہ کیا بات ہےکہ دونوں کو وجہ بتاؤ نوٹس تک جاری نہیں کیاگیا؟ جے رام رمیش نے دونوں لیڈروں کونفرت انگیزی کے ’’عادی مجرم ‘‘ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر وزیراعظم کی خاموشی، تائیدنہیں ہے تو ملک کے آئین پر بار بار حملہ کرنے والے ان دونوں اراکین پارلیمان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیاگیا؟‘‘
بی جےپی لیڈروں کی برہمی کی وجہ
جےرام رمیش نے کہا ہےکہ ’’آئینی عہدوں پر فائز افراد، وزراء اور بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ بھی سپریم کورٹ کے خلاف بولنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ یہ کہہ رہا ہے کہ قانون بناتے وقت آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نہ جائیں۔ اگر یہ قانون آئین کے خلاف ہے تو ہم اسے قبول نہیں کر سکتے۔ ‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’وزیراعظم مودی کی سرپرستی میں ہونے والے اس طرح کے حملے ظاہر کرتے ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی آئین اور اداروں کو ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ ‘‘ جے رام رمیش نے کہا کہ’’کانگریس چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ آزاد، غیر جانبدار ہو اور آئین نے اس کو جو حقوق دیئے ہیں، ان کا مکمل احترام کیا جائے لیکن یہ بالکل صاف ہے کہ جان بوجھ کر الگ الگ آوازیں آ رہی ہیں اور سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے انتخابی بانڈز سے لے کر وقف بورڈ تک حکومت سے کہا ہے کہ جو اس نے کیا ہے، وہ غیر آئینی ہے۔ ‘‘
کورٹ کو دھمکانے کی کوشش
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے نشی کانت دوبے اور ان جیسے بی جےپی لیڈروں کے بیانات کو سپریم کورٹ کو دھمکانے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے حیدرآباد میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ بی جے پی آئین کو لے کر فراڈ کر رہی ہے اور ڈرا رہی ہے، مذہبی جنگ کی دھمکی دے رہی ہے۔ مودی بتاؤ کہ کون کٹر ہو چکا ہے؟ آپ اقتدار میں ہیں اور آپ کے لوگ کٹر ہو چکے ہیں اور اتنے کٹر ہو چکے ہیں کہ عدالت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ‘‘ سی پی آئی کے لیڈر ڈی راجا نے بی جےپی لیڈروں کے بیانوں کو آئین پر براہ راست حملہ قراردیا جبکہ مہوا موئترا نے پالتو کتےکی ایک نسل’’پِٹ بُل‘‘ کا استعارہ استعمال کیا اورکہا کہ’’یاد رہے کہ پِٹ بُل اپنے آقا کے اشارے کے بغیر کچھ نہیں کرتا۔ ‘‘
جگدیپ دھنکر کاسپریم کورٹ پر حملہ
اسمبلیوں سے منظور شدہ مسودہ قانون پر صدر کو۳؍ ماہ میں فیصلہ کرنے کے سپریم کورٹ کے مشورہ پر حکومت اور بی جےپی برہم ہے۔ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے عدلیہ پر حد سے تجاوز کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا کہ’’اب ہمارے پاس ایسے جج ہیں جو قانون بھی بنائیں گے، عاملہ کی ذمہ داری بھی نبھائیں گے اور سُپر پارلیمنٹ کی طرح کام کریں گے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ’’ آئین کا آرٹیکل ۱۴۲؍ ایٹمی میزائل بن گیا ہے جو جمہوری طاقتوں کے خلاف۲۴؍ گھنٹے عدلیہ کے پاس موجود ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ حق کس نے دیا ہےکہ وہ صدر جمہوریہ کو ہدایت دے؟‘‘
نشی کانت دوبے کی بدزبانی
مودی سرکار کے پاس کردہ وقف ترمیمی بل کے کئی التزامات پر سپریم کورٹ کے ذریعہ روک لگادینے پر بی جےپی تلملائی ہوئی ہے۔ پارٹی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے کہا ہے کہ ’’ `عدالت اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ ہر کسی کو ہر بات پر اگرسپریم کورٹ ہی جانا ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اس ملک میں مذہبی جنگ بھڑکانے کیلئے صرف اور صرف سپریم کورٹ ذمہ دار ہے۔ ‘‘ ان کے مطابق ’’تم (سپریم کورٹ )ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہو، پارلیمنٹ کےا جلاس میں اس پر بحث ہوگی۔ ‘‘
رجیجو بھی عدلیہ کو نشانہ بناچکے ہیں
وقف ترمیمی قانون کے خلاف سماعت سے دو روز قبل اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بھی اسی نوعیت کا بیان دیاتھا۔ این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ ’’ امید ہے کہ سپریم کورٹ اس(وقف) معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اگر کل کو حکومت عدلیہ میں مداخلت کرتی ہے تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ اختیارات کی تقسیم کیسے ہو گی، اس کی وضاحت اچھی طرح کی گئی ہے۔ ‘‘ ان کے اس بیان کو وقف ترمیمی ایکٹ پر سماعت سے قبل عدلیہ کو بند لفظوں میں دھمکی دینے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا گیا۔