نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے ضمانت نہ دینے کے رویے پر بھی تنقید کی ، کہا کہ ضمانت بنیادی حق ہے اور جیل میں قید رکھنا صرف ناگزیر معاملات میں ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: August 10, 2024, 1:45 PM IST | Agency | New Delhi
نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے ضمانت نہ دینے کے رویے پر بھی تنقید کی ، کہا کہ ضمانت بنیادی حق ہے اور جیل میں قید رکھنا صرف ناگزیر معاملات میں ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے شراب پالیسی کیس میں عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیا کو بالآخر ضمانت دے دی ہے جس کے بعد تہاڑ جیل سے ان کی رہائی عمل میں آگئی ہے۔ وہ تقریباً ۱۶؍ ماہ بعد جیل سے باہر آئے ہیں۔ جسٹس گوائی کی بنچ نے ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے کافی اہم باتیں کہیں۔ بنچ نے کہا کہ نچلی عدالت اور ہائی کورٹ اکثر یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ضمانت اصول ہے اور جیل استثنیٰ یعنی ضمانت بنیادی حق ہے جبکہ کسی بھی ملزم کو جیل میں رکھنا صرف اسی وقت ضروری ہے جب حالات ناگزیر ہوں ۔ بنچ نے کہا کہ ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے اسی رویے کی وجہ سے بڑی تعداد میں ضمانت کی درخواستیں سپریم کورٹ میں آتی ہیں جس کی وجہ سے عدالتی عمل ہی سزا بن جاتا ہے۔ ججوں نے کہا کہ عدالتی عمل کو سزا نہ بنایا جائے۔
منیش سیسودیا کے تعلق سے بنچ نے کہا کہ ملزم معاشرے کا ایک اہم فرد ہے۔ اس کی سیاسی اور سماجی زندگی ہے۔ ایسے میں اس کے فرار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نچلی عدالتیں اس بنیاد پر ضمانت کی شرائط طے کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے نہیں کیا۔ فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا یہ بھی کہا کہ ای ڈی کے وکیل نے کہاتھا کہ۳؍ جولائی تک تفتیش مکمل ہو جائے گی اور یہ بات اکتوبر ۲۰۲۳ء میں کہی گئی تھی لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
کورٹ نے کہا کہ اس تاخیر کی وجہ سے نچلی عدالت میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ذاتی آزادی ایک بنیادی حق ہے۔ مناسب وجہ کے بغیر اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔سیسودیا کو مقدمے کی سماعت کےبغیر غیر معینہ مدت تک جیل میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا کہ ٹرائل میں تاخیر کے لئےملزم بھی ذمہ دار ہیں۔بنچ نے اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے سیسودیا کے خلاف کئے گئے منفی تبصروں کو بھی خارج کر دیا۔منیش سیسودیا کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم سے پی ایم ایل اے سیکشن ۴۵؍ کے تحت دی گئی ضمانت کی سخت شرائط سے نرمی مانگی گئی ہے۔ ای ڈی نے کہا کہ مقدمے میں تاخیر کے لئے ملزم خود ذمہ دار ہے۔ ملزم غیر ضروری دستاویزات مانگ رہا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ریکارڈ ایسا نہیں دکھاتا۔ ای ڈی اور سی بی آئی دونوں معاملوں میں زیادہ درخواستیں داخل نہیں کی گئی ہیں، اس لئے ہم مقدمے میں تاخیر کے لئے ملزم کو ذمہ دار ٹھہرانے میں نچلی عدالت اور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ملزم کو دستاویزات دیکھنے کا حق ہے۔ بہرحال عدالت نے مختلف شرائط کے ساتھ سیسودیا کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ تہاڑ جیل سے دوپہر کے وقت رہا ہونے کے بعد پارٹی کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ انہوںنے اس دوران مختصر خطاب بھی کیا اور کہا کہ آج ڈکٹیٹر شپ کی شکست ہوئی ہے۔ جموریت کو فتح ملی ہے۔