آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ پروفیسر منوج جھا نے شہریوں کی آمد نی میں واضح فرق سمیت متعدد موضوع اٹھائے۔
EPAPER
Updated: February 07, 2025, 3:56 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ پروفیسر منوج جھا نے شہریوں کی آمد نی میں واضح فرق سمیت متعدد موضوع اٹھائے۔
صدر جمہوریہ کے خطاب کے پس منظر سے ہم سب واقف ہیں۔ یہی حکومت نہیں ہر حکومت میں کابینہ یہ خطاب تیار کرتی ہے۔ جناب کئی عالمی روایتیں ہم نے تبدیل کی ہیں، یہ خیال آتا ہے کہ اگر اس روایت پربھی غور کریں کہ صدر جمہوریہ اپنےتجربات اور اپنی فہم کی بنیاد پر اپنا درد بیان کریں تو زیادہ بہتر ہو گا ۔ یہ بات میں آگے کیلئے چھوڑ ر ہاہوں۔ میں آج صبح یہ سوچ رہاتھا کہ اگر دھرت راشٹر نے مہابھارت کو سنجے کی نظر سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا ہوتا؟ سنجے کو کابینہ مان لیا جائے۔ میں اس پس منظر میں یہ بات رکھنا چاہ رہاتھا مگر
زاہد نے میرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پہ تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
توجو پریشانیاں ہیں، جو دقتیں ہیں وہ اگر ظاہر ہوتی ہیں تو ایک اجتماعی جذبہ کے تحت اس پر کام ہوسکتاہے۔ دنیا کاکوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ہم مشترکہ طور پر حل نہیں کرسکتے۔ یہ حکمراں اور حزب اختلاف کا معاملہ نہیں ہے۔اس پس منظر میں میں یہ بات کہہ رہاتھا۔
مہا کمبھ میں جو جانیں گئی ہیںمیں ان کیلئے اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں اعدادوشمار میں نہیں جاؤں گا۔ میں کووڈ کے دور کا بھی گواہ ہوں۔ کتنی لاشیں چلی گئیں جنہیں دیکھا ہی نہیں گیا۔یہ لوگ بہت ہی عام لوگ ہیں۔ انہیں زندگی میں وقار چاہئے، آئین بھی یہی بات کہتا ہے مگر موت کےبعد اس سے زیادہ وقار کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہم باوقار موت کو یقینی نہیں بنا پارہے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی اور اجتماعی ناکامی ہے۔ اعدادوشمار کی کیا بات کروں۔ میں جانتا ہوں۔مجھے فون آتے ہیں، آپ کو بھی آتے ہوں گےکہ فلاں گیاتھا ،اس کی کوئی خبر نہیں مل رہی،فون نہیں لگ رہا۔ یہ فکرمندی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ۱۷؍ گھنٹے تک سرکاری طو رپر کوئی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔ تب پھر افواہ پھیلتی ہے اور مزید بھگدڑوں کو جنم دیتی ہے جو دوتین جگہ ہوگئیں۔ کل جب ایوان میں بات چیت شروع ہوئی ، کھرگے صاحب نے تقریر کی، باقی لوگ بولے تو میں سوچ رہاتھا کہ اب تک نہرو جی نہیں آئے تو نہرو جی بھی آگئے۔ ۱۹۵۴ء کے کمبھ کا ذکر ہوا کہ اتنے لوگ مارے گئے تھے۔ ذرا سوچئے کہ لاشوں کی تعداد پر تیرا والا اور میراوالا کرنے پر عام شہریوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟
میں نے آل پارٹی میٹنگ میں جس میں نڈا جی بھی موجود تھےکہاتھا کہ اس ملک میں مذہبی اور اندھی عقیدت میں فرق مٹتا جارہاہے۔ ہم مذہبی ملک ہیں،آج سے نہیں ہزاروں سال سے مگر دھرم کے نام پر موجودہ اندھی عقیدت نئی چیز ہے۔ ہر گھنٹے کوئی نیا بابا آرہا ہے،اس سے بھڑنےکیلئے کسی مولانا کو لایا جاتا ہے۔ یہ سب آئین کے نقطۂ نظر سے بھی بند ہونا چاہئے۔ مذہبی باباؤں کی یہ جو پروڈکشن فیکٹری آگئی ہے،اس پر بھی روک لگنی چاہئے۔ وی وی آئی پی درشن کے نام پر ایشور کو کیوں ٹھگا جارہاہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو متفقہ جذبہ کے ساتھ عہدکرنا ہوگا کسی بھی مندر یا درگاہ میں وی آئی پی درشن نہیں ہوگا۔
صدر جمہوریہ نے ایک بات اور رکھی کہ حکومت کے فیصلوں میں غریب متوسط طبقہ، خواتین اور نوجوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو میں یہ سوال نہیںاٹھاتا۔ کسان ترجیحات میں شامل ہے مگر کسان سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ایک کوی نے کہاتھا کہ ’’لوہے کا سواد لوہار سے نہ پوچھو، اس گھوڑے سے پوچھو جس کے منہ میں لگام لگی ہوئی ہے‘‘، یہ پوچھنا ہم بھول گئے ہیں۔میں شہریوں کی آمدنی میں غیر معمولی فرق کا بھی موضوع اٹھانا چاہتا ہوں جو میں نے کل جماعتی میٹنگ میں بھی اٹھایاتھا۔ یہ چیز ہمیں آنے والے برسوں میں اور پریشان کرے گی۔ کروڑ پتی زیادہ ہوں،اس سے مسئلہ نہیں ہے مگر یہ جو کھائی بن رہی ہے وہ پریشان کن ہے۔ بیروزگاری کے تعلق سے میں جانتا ہوں کہ اس کا فوری حل کسی کے پاس نہیں ہے مگر اس کے خلاف منصوبہ کیا ہے؟اس منصوبہ کی پہلی چیز یہ ہے کہ تسلیم کرو کہ ہاں ملک میں بیروزگاری ہے۔ اعدادوشمار مت گھڑو۔ حقیقت یہ ہےکہ ہر ۳؍ نوجوانوں میں سے ۲؍ بیروزگار ہیں۔ بہار میں ہمارے یہاں ایک ادارہ ہے جو امتحانات منعقد کراتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں کوئی امتحان ایسا نہیں ہوا جس میں دھاندلی نہ ہوئی ہو، اس کے خلاف احتجاج کرنے جائیں تو لاٹھیاں پڑتی ہیں۔ہم اپنے نوجوانوں کو کیسا ملک دے رہے ہیں؟ایک ایسا ملک جس میں وہ اپنی جائز مانگوں کیلئے بھی سڑکوں پر نہ آئیں؟وزیر ریلوے نے وندے بھارت، امرت بھارت اور نمو بھارت ٹرینوں کا ذکر کیا۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ پرانی ایکسپریس اور پسنجر ٹرینوں کی حالت بھی دیکھی جائے کیونکہ یہی عام آدمی کی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔صدرِ جمہوریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بائیں بازو کی انتہا پسندی میں کمی آئی ہے، جو خوش آئند بات ہے۔ مگر سر دائیں بازو کی انتہا پسندی بھی ایک مسئلہ ہے جو قوم پرستی کا روپ دھار رہی ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ہوگا، ورنہ آئین اور جمہوری اقدار متاثر ہوں گے۔