منوج جھانے ملک کو اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ پر آئینہ دکھایا، نہرو کو ویلن بنانے پر بھی تنقید کی، کہا کہ۲۵؍ سال بعد آپ کے کاموں کا بھی محاسبہ ہوگا۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 1:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
منوج جھانے ملک کو اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ پر آئینہ دکھایا، نہرو کو ویلن بنانے پر بھی تنقید کی، کہا کہ۲۵؍ سال بعد آپ کے کاموں کا بھی محاسبہ ہوگا۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم آئین پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ اہم اسلئے ہے کہ (جمہوریت کے) دوسرے ستون کے کچھ لوگ تو ایشور سے بات کرنےلگے ہیں۔ بھگوان کو کتنا کام ہے، کسی کی نوکری لگوانی ہے، کسی کی شادی کروانی ہے، کسی کو الیکشن جتوانا ہے۔ تو کس کی پرچی نکلے گی، کس کی عرضی لگے گی پتہ نہیں، اس لئے اچھا ہےکہ ہم آئین کے دائرہ میں بات کررہے ہیں۔
جب سے میں اس ایوان میں آیا ہوں نہرو پر بہت بات ہوتی ہے۔ میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ ۲۰۱۴ء کا الیکشن، ۲۰۱۹ء کاالیکشن اور ۲۰۲۴ء کا الیکشن جواہر لال نہرو نہیں ہارے، اپوزیشن ہارا ہے، کانگریس ہاری ہے، آپ ۱۰۰؍ سال بھی الیکشن جیتیں گے تب بھی نہرو کو وہیں کھڑا پائیں گے کیونکہ نہرو آمریت کیخلاف پارلیمانی جمہوریت کی علامت ہیں۔ نڈا صاحب نے جے پی کا ذکر کیا۔ جے پرکاش ایسے آدمی تھے کہ جب ان پر تنقید نہیں ہوتی تھی تو ’چھدم ‘ نام سے خود اپنی تنقید خود ہی کرتے تھے۔ کشمیر کے موضوع پر جےپی نے نہرو کو جو چٹھی لکھی تھی یا ایمرجنسی کے وقت اندرا جی کو جو چٹھی لکھی تھی، وہ چٹھی اگر آج منوج کمار جھا اپنے نام سے کاپی پیسٹ کر دے تو جناب عالی شام تک میں ٹی وی کے مباحثوں میں ویلن بن جاؤں گا۔ چونکہ ایم پی ہوں اس لئے یو اے پی اے بھلے ہی نہ لگے مگر بہت سی تہمتیں ضرور لگ جائیں گی۔
دونوں طرف (اپوزیشن اور حکمراں محاذ کی جانب سے ) ایسی باتیں ہورہی ہیں کہ میری قمیص سفید، تمہاری گدلی، ذرا آئین کی قمیص بھی دیکھ لو، وہ گدلی نہ ہو، اس پر داغ نہ لگے، یہی ہمارا نصب العین ہو نا چاہئے۔ آج سے ۲۵؍ سال بعد میں اس ایوان میں نہیں ہوں گا۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت نہیں ہوں گے، جب آئین کے ۱۰۰؍ برسوں پر گفتگو ہورہی ہوگی مگر لوگ تجزیہ کریں گے بالکل اسی طرح جیسے آج ہم کررہے ہیں کہ نہرو کو یہ کرنا چاہئے تھا، نہرو نے وہ نہیں کیا۔ ۱۰۰؍ سال بعد کوئی آپ کے بارے میں بھی نکتہ چینی کرے گا، وہ بھی اچھا نہیں لگے گا۔ ٹائم مشین نہیں ہے ورنہ میں اپنے ساتھیوں کو ۱۹۴۶ء، ۱۹۴۷ء میں لے جاتا، دونوں طرف خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، مندر میں گائے کاٹ کر پھینکی جارہی تھی، مسجد میں سور پھینکے جارہے تھے۔ اُس دور میں ایک ایسے ملک کی تعمیر کا عزم کرنا(معمولی بات نہیں ہے۔ ) غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر آپ ویلن کیوں بناتے ہو۔ آپ سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ہم سے بھی ہوئی ہیں۔ جب ہم ایسے لیڈروں پر تبصرہ کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ۴۷ء میں اس ملک کی کیا حالت تھی۔
آپ نے گھر بنایا ہوگا، گراؤنڈ فلور بنانے میں سب سے زیادہ محنت لگتی ہے۔ بنیاد وہیں ہوتی ہے۔ نہرو، امبیڈکر، پٹیل اور آزاد نے بنیاد رکھی ہے۔ آپ دوسرا اور تیسرا منزلہ بنا رہے ہیں، انہوں نے پہلا منزلہ بنایا۔ آپ پانچ منزلے اور بنا یئے مگر بنیاد کےبغیر یہ کسی کام کے نہیں ہوں گے۔ ہمارے وزیراعظم اور بی جےپی کے کئی ساتھی، آئین کے رہنما خطوط میں شامل یونیفارم سول کوڈ پر بات کرتے ہیں۔ آرٹیکل ۴۴؍ سے پہلے آرٹیکل ۳۹(سی) ہے جو دولت کے کچھ ہاتھوں تک محدود ہوجانے سے متعلق ہے۔ آمدنی میں مساوات کا اس ملک میں جو عالم ہے، اس لحاظ سے ہم ٹائم بم پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ صرف غریبوں اور متوسط طبقہ کو نہیں سب کو متاثر کررہاہے۔ ابھی حال ہی کی ایک رپورٹ آئی کہ منافع کمانےوالی کمپنیوں کے منافع کا اثر اُن کے ملازمین کی تنخواہوں پر نظر نہیں آتا۔ محرومی بڑھ رہی ہے۔ ا س لئے یونیفارم سول کوڈ سے متعلق آرٹیکل ۴۴؍ تک پہنچئے مگر راستے میں آرٹیکل ۳۹(سی) کی شکل میں ایک سنگ میل موجود ہے، وہاں رُکئے، سوچئے۔ اس لیے کہ آپ ابھی امبیڈکر کا حوالہ دے رہے تھے، انہوں نے زمین اور صنعتوں کے قومیانے کی بات بھی کی تھی۔ میں آج کے دور میں اس کی پیروکاری نہیں کررہا ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرائیویٹ پلیئر(نجی صنعتکار) ایسے نہ ہوجائیں کہ ایک کو چادر سے ڈھنکنے کی چکر میں پورا ملک برہنہ حقیقتوں سے رو برو ہوتا رہے۔
آج جب میں یہاں بول رہا ہوں، ملک کے کسی نہ کسی کونے میں سیور میں اُترنے کی وجہ سے ایک نہ ایک موت ہوچکی ہوگی۔ پورے ملک میں کھدائی چل رہی ہے۔ ایک کھدائی ہم اراکین پارلیمان بھی مل کر کریں۔ یہ معلوم کریں کہ سیور میں اُتر کر زہریلی گیس سے مرنےوالے یہ لوگ کون ہیں ؟کیا وہ ’’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘‘ میں نہیں آتے۔ کیا یہ ہمارا حصہ نہیں ہیں ؟ وہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہماری ذات پات کی درجہ بندی میں وہ نیچے آتے ہیں اس لئے ان کی فکر ہم کچھ کم کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
جب آزادی کی بات ہو تو ہم تجزیہ کریں۔ فریڈم میں فری اور ڈوم الگ الگ نہیں ہے، جیسا کہ جارج آرویل کی کتاب میں تھا کہ تمام جانور برابر ہیں مگر کچھ جانوروں کو دوسرے جانوروں کے مقابلے میں برابری کا زیادہ حق حاصل ہے۔ اس ملک میں نام اور سرنیم سے بھی چیزیں طے ہوتی ہیں۔ خالد نام ہے تو جیل میں رہو گے شنوائی نہیں ہوگی، میراں حیدر نام ہے تو شنوائی نہیں ہوگی، شرجیل امام نام ہے یا گلفشاں نام ہے تو بھی سماعت نہیں ہوگی۔ چھتیس گڑھ میں ’’مول نِواسی بچاؤ ‘‘ منچ ہے، آپ اس کو غیر قانونی قرار دے دیتے ہیں، کسان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں غدار بتایا جاتا ہے، طلبہ نوکری کیلئے اور کچھ تو نوکری بھی نہیں مانگ رہے امتحان وقت پر کرادینےکیلئے احتجاج کررہے ہیں، انہیں آپ افراتفری مچانےوالے اور نکسل قرار دے دیتے ہیں۔ یہ جو اصطلاحات لے کر آپ گھوم رہے ہیں، اس سے باز آیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آپ ۱۱؍ ویں سال میں داخل ہوں اور آپکے پاس بہت مضبوط اقتدار ہو تو ایسی حرکتیں ہوتی ہیں مگر اس کو روکنا ہی سمجھداری اور قابل لیڈرشپ کی علا مت ہے۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہاہے اس پر افسوس ہوتا ہے مگر ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہے ہیں ؟ورنہ ہم بنگلہ دیش ہو کہ پاکستان، ان سے یہ کہہ پاتے کہ ہم سے سیکھو، اقلیتوں کو ایسے رکھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہی رپورٹ کارڈ میں اگر کمیاں ہیں تو کیسے کہیں گے۔