سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اراکین نے فسادات پر حکومت کو گھیرنے کے ساتھ ہی ضمنی انتخابات میں بدعنوانی کے الزامات پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا یوگی سرکار کی عجیب و غریب منطق ،کہا:اگر مسلمانوں کو جے شری رام سے کوئی مسئلہ ہے تو ہندو بھی اللہ اکبر پر اعتراض کر سکتے ہیں، بابر اور اورنگ زیب کا بھی نام لیا۔
سماجوادی پارٹی کے اراکین نے اسمبلی کے گیٹ پرتختیاں اور پلے کارڈلے کر مظاہرہ کیا۔ تصویر: آئی این این
اترپردیش اسمبلی کا سرمائی اجلاس شروع ہوتے ہی ہنگامہ خیزہوگیا۔ اہم اپوزیشن سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے ارکان نے سنبھل و بہرائچ میں ہوئے ظلم و زیادتی کے معاملوں کے ساتھ ہی حالیہ اسمبلی ضمنی انتخابات میں بدعنوانی کے مسئلے پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور بحث کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپوزیشن کے الزامات کی تردید کی اور اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے دور میں فسادات میں ۹۹؍فیصدکمی آئی ہے۔ اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نےایک عجیب و غریب منطق پیش کی۔ انہوں نےکہا کہ یہاں رام، کرشن اور بودھ کی روایت ہی رہےگی، بابر اور اورنگ زیب کی نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مسلمانوں کو جے شری رام سے کوئی مسئلہ ہے تو ہندو بھی اللہ اکبر پر اعتراض کر سکتے ہیں۔
یوپی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے دن ہی پیرکو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سےسنبھل و بہرائچ کےتشدد اور حالیہ ضمنی انتخابات کے مسئلے پر بحث کرانے کے مطالبے اورنعرے بازی کئے جانے پراسمبلی اسپیکر ستیش مہانا نےاجلاس کی کارروائی کو پرامن چلانے کیلئے کئی بار تعاو ن کی اپیل کی اورضابطہ کا حوالہ دیا مگرجب بات نہیں بنی تو انہوں نے اجلاس کوتھوڑی دیرکیلئے ملتوی کردیا۔ وقفہ سوالات کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا توبھی اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ آرائی جاری رکھی۔ اس سے قبل سماجوادی پارٹی کے اراکین نے اسمبلی کے گیٹ پرتختیاں لے کر مظاہرہ کیا اور مہنگائی، بے روزگاری، جمہوریت اور کسانوں کے مسائل سمیت دیگر کئی ایشوزپرحکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھئے:’’ آج جمہوریت، سیکولرازم، آئین کی حکمرانی، مساوات، وفاقیت اور آزاد عدلیہ میں سے کچھ نہیں بچا‘‘
قائد حزب اختلاف ماتا پرساد پانڈے اور دیگر اراکین نے بہرائچ اور سنبھل میں فرقہ وارانہ فسادات میں جان و مال کے نقصان پر(۳۱۱)کےضابطہ کے تحت بحث کا مطالبہ کیا۔ ان کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کی لیڈر آرادھنا مشرا’ مونا‘ نے بھی اسی ضابطہ کے تحت بحث کے مطالبہ پر زور دیا لیکن اسمبلی اسپیکر نے اسے قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے ایس پی اراکین احتجاجاً نعرے لگاتے ہوئےاسپیکر کے سامنے پہنچ گئے۔ ایس پی اراکین کی مسلسل مزاحمت کے درمیان مہانا نے قاعدہ ۵۶؍ کے تحت بحث کرانے کا آپشن دیا، لیکن سماجوادی کے اراکین مسلسل نعرے لگاتے رہے۔ اس دوران اسپیکر نے اراکین کو ضمنی سوالات کرنے کی اجازت دی جس پرایس پی رکن اسمبلی ڈاکٹر راگنی سونکر، کانگریس کی آرادھنا مشرا ’مونا‘اور ایس پی کی پلوی پٹیل نے بولنے کی کوشش کی لیکن شور شرابے میں ان کی آوازیں دب گئیں۔
اسمبلی کی کارروائی اور اپوزیشن کے ہنگامہ کے بارے میں سوالات کرنے پرسماجوادی پارٹی کے رکن ضیاءالدین رضوی اور کمال اختر نے ’انقلاب ‘ کوبتایا کہ ان کا احتجاج حکومت کی غلط پالیسیوں و ناکامیوں، ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات، حکومت کی جانب سےغنڈوں کی پشت پناہی، مسلمانوں کو فرضی مقدموں میں پھنسانے اور ریاست میں غیراعلانیہ ایمرجنسی جیسے حالات کےخلاف ہے۔ کمال اختر نے مزیدکہا کہ سنبھل کا تشدد فرقہ وارانہ نہیں تھا کیونکہ وہاں مقامی ہندو اور مسلمان کے درمیان کوئی فساد نہیں ہوا بلکہ دوبارہ سروے کرنے والی ٹیم کےوہاں جانے اور ان کے ساتھ چلنے والے باہری افراد کی جانب سے اشتعال انگیز نعرے لگانے کی وجہ سے تشدد ہوا۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ سروے ٹیم سرکاری افسران پر مشتمل تھی تو جے شری رام کے نعرےلگانے والے کون لوگ تھے اوروہ وہاں کیا کرنے گئے تھے ؟ اس سمت میں کوئی تحقیقات یا کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سنبھل میں جس مندر کی بازیابی کا دعویٰ کیا جار ہا ہے، وہ زمین ایک ہندوشخص ہی نے دوسرے ہندو شخص کو فروخت کی تھی اوراسی کی تحویل میں تھی، اس معاملہ سے کسی مسلمان شخص کا کوئی واسطہ نہیں۔ کمال اختر نے اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخابات میں بدعنوانی کا الزام لگایا اورکہا کہ ریاست کے ۵۴؍محکموں کے افسران کو الیکشن جتانے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور انتخاب غیرجانب داری اور شفاف طریقہ سے ہوتا تو سبھی نوسیٹوں پرسماجوادی پارٹی فتحیاب ہوتی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سنبھل کا فساد بی جے پی کی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا تاکہ انتخابات کی بدعنوانیوں سے عوام کی توجہ کو ہٹایا جا سکے۔
اسمبلی اجلاس کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ نےعجیب و غریب انداز میں اپنی حکومت کا دفاع کیا۔ انہوں نےکہا کہ یہ ملک رام، کرشن اوربودھ کی روایت ہی سے چلے گا، بابر اورنگ زیب کی روایت کے ساتھ نہیں۔ یوگی نے سوال کیا کہ اگر مسلمانوں کا جلوس پرامن طریقے سے ہندو اکثریتی علاقے سے گزر سکتا ہے تو ہندو جلوس مسجد کے سامنے سے کیوں نہیں گزر سکتا؟اگر مسلمانوں کو جے شری رام سے کوئی مسئلہ ہے تو ہندو بھی اللہ اکبر پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے شرانگیزی کی حد تک جاتے ہوئے کہا کہمسلمان یہاں پر جے شری رام، ہر ہر مہادیو اور رادھے رادھے کے ساتھ اپنی زندگی گزارسکتے ہیں، انہیں کسی اور نعرے کی ضرورت نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کندرکی کی جیت، آئین کی جیت اور سناتن کی جیت ہے۔ اس موقع پرانہوں نے دعویٰ کیا کہ اترپردیش واحد ریاست ہے جس نے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق بلڈوز ر کارروائی کی ہے۔