Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

مولانا مجاہد، مولانا عبدالرحمٰن اور محمد سمیع برسوں بعدبری

Updated: March 03, 2025, 9:37 AM IST | Inquilab News Network | Jamshedpur

دہلی ایس ٹی ایف کی نشاندہی پر ۲۰۱۶ء کے کیس میں گرفتاری کے وقت دہشت گردی اور القاعدہ سے وابستگی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

Maulana Kaleemuddin Mujahid, Maulana Abdul Rehman Ali Khan alias Maulana Mansoor and Muhammad Sami. Photo: INN
مولانا کلیم الدین مجاہد،مولانا عبدالرحمٰن علی خان عرف مولانا منصور اور محمد سمیع۔ تصویر: آئی این این

جمشید پور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج وِملیش کمار سہائے نےایک اہم فیصلہ میں  مولانا کلیم الدین مجاہد، مولانا عبدالرحمٰن علی خان عرف مولانا منصور اور محمدسمیع کو القاعدہ سے تعلق کے الزام سے بری کردیا ہے۔ انہیں   ۲۰۱۶ء کے ایک کیس میں   دہلی ایس ٹی ایف کی نشاندہی پر جھارکھنڈ پولیس نے گرفتار کیاتھا۔ گرفتاری کے وقت انہیں  دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا اور یہ بلند بانگ دعویٰ کیاگیا کہ وہ برصغیر ِہندوستان میں  القاعدہ کی اکائی سے وابستہ تھے اوراس کیلئے کام کررہے تھے مگر کورٹ میں  تفتیش کار اس کاکوئی ثبوت پیش نہیں  کرسکے۔ 
 مولانا عبدالرحمٰن علی خان عرف مولانا منصور اورمحمد سمیع جو بستو پور کے رہنےوالے ہیں  ، فی الحال چھگیڈیہہ سینٹرل جیل میں  قید ہیں جبکہ آزاد نگر مانگو کے رہنےوالے مولانا کلیم الدین مجاہد پہلے ہی ضمانت پر رہا ہوچکے تھے۔ ۲۰۱۶ء میں دہلی ایس ٹی ایف کے ذریعہ فراہم کی گئی معلومات کی بنیاد پر جمشید پور کے رہنےوالے احمد مسعود اکرم شیخ کے خلاف  ایک ایف آئی درج ہوئی تھی۔ مسعود کی گرفتاری کے بعد ان کے بیان کو بنیاد بنا کر مولانا مجاہد، مولانا عبدالرحمٰن اور محمد سمیع کو گرفتار کیاگیا اوراسے دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں  سنگ میل بنا کر پیش کیاگیا۔ محمد سمیع کو دہلی ایس ٹی ایف نے جنوری ۲۰۱۹ء میں  ہریانہ کے میوات سےگرفتار کیاتھا جبکہ مولانا منصور دوسرے کیس میں کٹک سے دسمبر۲۰۱۵ء میں  پہلے ہی گرفتار ہوچکے تھے۔ 
  تینوں  ملزمین کو بری کرنے کے عدالت کے فیصلے کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے وزیر دفاع بالا جی پانڈا نےبتایا کہ ’’استغاثہ نے ۱۶؍ گواہ پیش کئے مگر ان کی گواہی سے تینوں  ملزمین میں   ساز باز ثابت نہیں  کرسکا جس کے بعد ثبوتوں  کی عدم موجودگی کی بنیاد پرکورٹ نے ملزمین کو بری کرنے کافیصلہ سنایا۔ ‘‘ ٹائمز آف انڈیا نے بھی معاملے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ استغاثہ ملزمین کے جرائم کو کائی بھی ثبوت پیش کرنے میں  ناکام رہا۔ 
 بری ہونےوالے مولانا عبدالرحمٰن علی عرف مولانا منصور کا تعلق ادیشہ میں  کٹک سے ہے، اسی لئے پولیس نے ان کی عرفیت میں  ’کٹکی‘ بھی شامل کررکھا ہے۔ محمد سمیع جھارکھنڈ میں   بستوپور کے دھت کھیڈیہہ کے رہنے والے ہیں۔ مولانا منصور اور محمد سمیع کو دہلی کی عدالت ۲۰۲۳ء میں  یو اے پی اے کے تحت مجرم قرار دے چکی ہے جس کی وجہ سے جون اور ستمبر ۲۰۲۳ء میں  انہیں  جمشید پورکی جیل میں منتقل کیاگیا ہے۔ انہیں   ۸؍ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 
  کیس کی تفصیلات کے مطابق بستوپور پولیس اسٹیشن کے انچارج جتیندر سنگھ کو اس بات کی خفیہ اطلاعات ملی تھیں  کہ مسعود اکرم شیخ کا تعلق القاعدہ کی مبینہ طور پر ہندوستان میں  موجود اکائی سے ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ حراست میں  کی گئی پوچھ تاچھ کے دوران مسعود نے اپنے اوپر عائد کئے گئے الزامات کو قبول کرلیا اور مولانا کلیم الدین ا ور مولانا عبدالرحمٰن علی کٹکی کا نام لیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے سعودی عرب میں  ٹریننگ حاصل کی اور ۲۰۰۳ء میں  ساکچی جامع مسجد میں  مولانا عبدالرحمٰن علی عرف مولانا منصور سے ملاقات ہوئی۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ القاعدہ کو اسلحہ مانگو کا رہنےوالا نسیم اختر عرف راجو نامی شخص فراہم کرتاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء میں  ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سنجے کمار نے مسعوداکرم کواسلحہ ایکٹ کے تحت ۸؍ سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم نسیم اختر کو بری کردیاتھاکیوں  کہ پولیس اس کے خلاف بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں  کرسکی۔ مسعود کو سزا اس لئے ہوئی کہ پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مار کر اسلحہ ضبط کرنے کا دعویٰ  کیاتھا۔ 
  مولانا عبدالرحمٰن کے بھائی محمد طاہر نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں عدالت پر پورا اعتماد ہے۔ محمد طاہر کے مطابق’’عدالت کے فیصلے نے عدلیہ پر ہمارے اعتماد کو مزید پختہ کردیا ہے۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK