Inquilab Logo

پی ایف آئی پر آر ایس ایس کی خوشامد کیلئے پابندی لگائی گئی ہے

Updated: October 01, 2022, 11:54 AM IST | Agency | New Delhi

مایاوتی کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی حمایت، سماجی تنظیموں نے بھی پابندی کی مخالفت کی، حکومت کی جانب سے الرٹ مختلف ریاستوں میں سیکوریٹی سخت کی گئی

Day after day, Mayawati, who had been a staunch supporter of the BJP, surprisingly supported the PFI .Picture:INN
آئے دن بی جے پی کے گن گانے والی مایاوتی نے حیران کن طور پر پی ایف آئی کی حمایت کی ہے ۔ تصویر:آئی این این

دھیرے دھیرے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی حمایت میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ اب تک  اس معاملے میں قانونی اور سماجی  شخصیات نے ہی آوازاٹھائی تھی مگر حیران کن طور پر اس بار  اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔  مایاوتی نےپی ایف آئی پر پابندی لگانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو سیاسی مفاد  اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)  کی خوشامدپسندی پر مبنی  پالیسی بتایا ہے۔  مایاوتی نے جمعہ کے روز کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے لوگوں میں اطمینان کے بجائے بے چینی  پیداہو رہی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی ) پر مرکز نے ملک بھر میں کئی طریقے سے نشانہ بناکربالآخر  اسمبلی انتخابات سے پہلے، اس کی آٹھ تنظیموں کے ساتھ پابندی عائد کردی ہے،اسے  سیاسی مفاد اور آر ایس ایس کی خوشامدپسندی پرمبنی پالیسی قرار دے کر یہاں کے لوگوں میں  اطمینان کم اور بے چینی زیادہ ہے۔  ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے آر ایس ایس پر پابندی لگانے کے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں  حکومت کی نیت میں کھوٹ  مان کر اسے معاملے پر مشتعل اور حملہ آور ہیں اور آر ایس ایس پر پابندی لگانے  کی مانگ کھلے عام ہورہی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ اگر  پی ایف آئی سے ملک کی اندرونی سلامتی کو خطرہ ہے تو اس جیسی دوسری تنظیموں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟
 سماجی تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے مذمت
   پی ایف آئی پر عائد پابندی کے خلاف سماجی تنظیموں نے بھی آواز اٹھانی شروع کر دی ہے۔  حقوق انسانی سے متعلق ایک اہم تنظیم   پیوپلس یونین آف سول لبرٹیز  اس پابندی کو ’ غیر آئینی قرار دیا ہے اور اسے فوراً ہٹانےکا مطالبہ کیا ہے۔  پی یو سی ایل کے جنرل سیکریٹری وی سریش نے کہا کہ ’’پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف ملک گیر  سطح  پرچھاپے ، اس کے کارکنان کی گرفتاریاں اور اس پر پابندی مسلمانوں  میں  خوف پیدا کرے گی اور انہیں حاشئے پر دھکیل دے گی۔  تنظیم کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ پیوپلس یونین آف سول لبرٹیز  ملک  میں جمہوریت کے نفاذ  کیلئے فکر مند ہے اور آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی حمایت کرتی ہے۔ لہٰذا’ آپریشن اوکٹوپس‘ کے تحت ملک گیر سطح پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا جو کارروائی کی گئی ہے اس کی نظر میں غیر آئینی ہے  جس کی وجہ مسلمان حاشئے پر چلے جائیں گے ، ان میں ایک خوف پیدا ہوگا اور وہ خاموشی اختیار کر لیں گے جو کہ کسی بھی جمہوریت کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مشہور وکیل محمود پراچہ نے بھی  اس پابندی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ کسی بھی تنظیم پرپابندی عائد کرنے کا ایک قانونی اور آئینی عمل ہوتاہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت نے اس عمل کی پاسداری کی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں کی ہے اس کے خلاف آواز ٹھانی ضروری ہے۔ ‘‘ انہوں نے تنظیم کے تعلق سے حکومت کے رویے نامناسب قرار دیا۔ یاد رہے کہ شاہین باغ احتجاج کے معاملے میں خود محمود پراچہ بھی حکومت کے عتاب کا شکار ہو چکے ہیں۔ 
     حکومت الرٹ ، سیکوریٹی سخت
 مرکزی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد تنظیم کے دفاتر کو بند کر دیا گیا ہے اور کئی مقامات پر پولیس اہلکار بھی تعینات کر دئے گئے ہیں۔ اس دوران جمعہ کو کئی ریاستوں میں حفاظتی انتظامات میں اضافہ کیا گیا۔ یوپی، دہلی، اتراکھنڈ، کیرالہ، تمل ناڈو اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں سیکورٹی بڑھادی گئی۔ حالانکہ  علما ءنے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ خیال رہے کہ پی ایف آئی پر پابندی عائد ہونے کے بعد کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا تھا۔ پی ایف آئی پر چھاپہ ماری کے درمیان گزشتہ جمعہ کو بھی احتجاج و مظاہرہ کیا گیا تھا۔ تاہم اب پی ایف آئی کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، لہٰذا پولیس اور انتظامیہ  الرٹ ہے۔ مرکزی سیکوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے الرٹ ملنے کے بعد پولیس  نے حساس علاقوں میں بندوبست بڑھا دیا ہے۔  رپورٹ کے مطابق جمعہ کو پولیس اتر پردیش، دہلی، اتراکھنڈ، راجستھان ، مہاراشٹر، کیرالہ، تمل ناڈو، کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں چوکس تھی اور حساس مقامات کی نگرانی کی جا رہی تھی۔ کچھ مقامات پر حسب ضرورت تعیناتی بڑھائی گئی ساتھ ہی مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کی گئیں۔ دریں اثنا، علمائے دین لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو قانون کے خلاف ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK