حافظ رئیس احمد راعین تجارت کی مصروفیات اور بھاگ دوڑ کے باوجود قرآن کریم یاد رکھنے کیلئےتقریباً پورے سال دَور جار ی رکھتے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 02, 2025, 10:06 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
حافظ رئیس احمد راعین تجارت کی مصروفیات اور بھاگ دوڑ کے باوجود قرآن کریم یاد رکھنے کیلئےتقریباً پورے سال دَور جار ی رکھتے ہیں۔
حافظ رئیس احمد راعین کا شمار زری اور گارمنٹس کے بڑے اور کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے مگر تجارتی مصروفیات اور بھاگ دوڑ کو انہوں نے خود پر اتنا حاوی نہیں ہونےدیا کہ وہ تراویح پڑھانے کے معمولات کو متاثر کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ۱۹۹۴ء میں کرت پور( بجنور) کے مدرسہ مفتاح العلوم میں قاری محمدیٰسین کے پاس حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعدگزشتہ ۲۷؍ برس سے وہ بلا ناغہ تراویح پڑھا رہے ہیں۔
حافظ رئیس احمد نے کرت پور (بجنور)کی بدھو پاڑے والی مسجدمیں پہلی تراویح پڑھائی۔ دوسری تراویح کرت پور میں ہی مارکیٹ والی مسجد میں پڑھائی۔ اس کے بعدایک مرتبہ دہلی میں ایک فیکٹری میں پڑھائی۔ تلاش ِ معاش کیلئےممبئی آنے کے بعد یہاں مالونی مارکیٹ والی مسجد میں پہلی تراویح پڑھائی، اس کےبعد ۱۰؍سال اپنا گھربلڈنگ (مہاڈا) میں تراویح پڑھائی اور اب چند برسوں سے اپنے دفتر میں ہی تراویح کا نظم کرتے ہیں۔ امسال بھی وہ اپنے دفتر میں ہی تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ان ۲۷؍برسوں میں تراویح کے اہتما م میں ۲۷؍روزہ تراویح کےساتھ بیشتر دفعہ ۱۰؍ روز میں انہوں نے ۳؍ پارے کی ترتیب سے قرآن کریم مکمل کیا۔
تجارت کی بھاگ دوڑ کے باوجود حفظ قرآن کو محفوظ رکھنے کے تعلق سے حافظ رئیس نے بتایاکہ ’’کم وبیش پورے سال دَور جار ی رکھتا ہوں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ رمضان المبارک ختم ہونے کےبعد تلاوت کا اس درجے کا اہتمام نہیں ہوپاتا البتہ رمضان المبارک کی آمد سے ۶؍ماہ قبل سے اس طرح تیاری کرتا ہوں کہ جیسے جیسے رمضان المبارک قریب آتا ہے دَورمیں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کیلئے۶؍ماہ قبل سے تیاری شروع کردیتا ہوں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آسانی کے ساتھ تین تین پارے سنالیتا ہوں۔ جہاں تک لقمہ ملنے کی بات ہے توقرآن کریم سمندر ہے، اس میں لقمہ ملتا ہی ہے خواہ کتنا ہی اچھا یاد کیوں نہ ہو۔ ‘‘
انہوں نےاپنے مشفق استاد قاری محمدیٰسین کویاد کرتے ہوئے بتایاکہ ’’ان کا پڑھانے کاانداز بہت عمد ہ تھا، مخارج کی ادائیگی کے ساتھ یادداشت پربھی وہ بہت توجہ دیتے تھے، طلبہ پرسختی بھی کرتے تھے مگر خصوصی شفقت اورنرمی کا برتاؤ بھی کرتے تھے۔ و ہ ان طلبہ سے حددرجہ محبت کرتے تھے جو سبق اور آموختہ وغیرہ پابندی سے اورکم غلطیوں کے ساتھ سناتے تھے۔ انہوں نےمذکورہ ادارے میں تقریباً ۲۲؍سال پڑھایا، عمر زیادہ ہوگئی اوراب ضعف بھی رہتاہے اس لئےپہلے جیسا اہتمام ممکن نہ ہونے کے سبب گھر پر ہی رہتے ہیں، اللہ پاک انہیں صحت وسلامتی عطا فرمائے۔ ‘‘
حفاظ کو قرآن کریم یادرکھنے کےتعلق سے حافظ رئیس نے مشورہ دیا کہ ’’آپ کسی بھی شعبے میں ہوں، رزق حلال کیلئےکوئی بھی ذریعہ اپنائیں مگر قرآن کی تلاوت کا جوبنیادی حق ہے، اس سے غافل نہ رہیں اور کوشش کریں کہ ہرسال بلا ناغہ مسجد، دفتریا گھرہی میں تراویح ضرور پڑھائیں۔ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کریم یاد رکھنے کی فکر اور تلاوت کا اہتمام ہی میری تجارت میں برکت اور کامیابی کا سب سے اہم رازہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ اس اہتمام سے قرآن کریم پختہ رہے گا اور بھولنے کا اندیشہ نہیں رہے گا۔