’انڈیا ہیٹ لیب‘ کی رپورٹ کے بعد راجہ سنگھ کے فیس بک پیجز اور انسٹاگرام اکائونٹس پر بھی کارروائی ، میٹا نے کہا کہ’’ایسے شخص کو ہمارے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘
EPAPER
Updated: February 21, 2025, 3:16 PM IST | New Delhi
’انڈیا ہیٹ لیب‘ کی رپورٹ کے بعد راجہ سنگھ کے فیس بک پیجز اور انسٹاگرام اکائونٹس پر بھی کارروائی ، میٹا نے کہا کہ’’ایسے شخص کو ہمارے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دی جاسکتی۔ ‘‘
فیس بُک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے متنازع بی جے پی لیڈر اور رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ کے متعدد فیس بک اکائونٹس، انسٹاگرام اکاؤنٹس اور فیس بک پیجز کوبلاک کردیا ہے۔ یہ اقدام’انڈیا ہیٹ لیب ‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ راجہ سنگھ اور ان کے حامی مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ حالانکہ ان پر پہلے بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن وہ ہر مرتبہ نئے پیجز بنالیتے تھے لیکن اس مرتبہ کارروائی ایسے انداز میں کی گئی ہے کہ راجہ سنگھ اور ان کے حامیوں کو فیس بک اکائونٹ بنانے میں مشکل پیش آئے گی۔ ۲۰؍ فروری یعنی جمعرات کو میٹا نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے راجہ سنگھ سے منسلک دو فیس بک پیجز اور تین انسٹاگرام اکاؤنٹس ہٹا د ئیے اور ان کا سورس بھی بلاک کردیا ہے۔ ساتھ ہی میٹا نے بیان جاری کیا ہے کہ ’’ ایسے شخص کو جو نفرت انگیزی کو فروغ دیتا ہے اس طرح سے ہمارا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجا زت نہیں دی جاسکتی ہے۔
میٹا کی جانب سے تصدیق
میٹا کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ راجہ سنگھ پر میٹا کے پلیٹ فارم پر تشدد اور نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے کی پالیسی کی خلاف ورزی پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق ہماری پالیسی کے مطابق ایسے افراد کو پلیٹ فارم پر موجود رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو اتنی شدید نفرت انگیزی میں ملوث ہیں۔ ان کے تعلق سے ہم نے طویل عرصے تک جانچ کی اور اس کے بعد اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ان کے پیج اور اکائونٹس کو بلاک کرنا شروع کردیا ہے۔
کارروائی کا اثر
واضح رہے کہ راجہ سنگھ کے خلاف میٹا کی ’خطرناک افراد اور تنظیموں‘ کی پالیسی کے تحت کارروائی کی گئی ہےجس کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف خود پلیٹ فارم پر موجود نہیں رہ سکتے بلکہ ان کے حامیوں کی جانب سے بنائے گئے نئے صفحات، گروپس، یا اکاؤنٹس بھی ہٹائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ میٹا کی پابندی کے باوجود راجہ سنگھ اور ان کے حامیوں نے مختلف طریقوں سے پابندیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ وہ نئے نئے گروپس، پیجز اور اکاؤنٹس بنا کر اپنی نفرت انگیز تقاریر کو سوشل میڈیا پر پھیلاتے رہتے ہیں۔ جو پیجز ہٹائے گئے ان کے ۱۰؍ لاکھ سے زائد فالوورس تھے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ نفرت انگیزی پھیلانے کے لئے اکثر ’پراکسی‘ گروپس یا اکائونٹس کا استعمال کرتے تھے لیکن اب اسے بھی مشکل بنایا جارہا ہے۔
یہ کارروائی کیوں کی گئی ؟
امریکی راجدھانی واشنگٹن ڈی سی میں قائم سینٹر فار دی اسٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ کے تحت جاری ’انڈیا ہیٹ لیب‘کی سالانہ رپورٹ نے ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات میں ۷۴؍ فیصد اضافے کا انکشاف کیا ہے۔ انڈیا ہیٹ لیب نے اس تعلق سے ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے جس کا عنوان ہے ’ہندوستان میں نفرت انگیز بیانات ۲۰۲۴ء ’، اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال ۱۶۵۱؍ مصدقہ نفرت انگیز واقعات ریکارڈ کئے گئے جو۲۰۲۳ء میں ۶۶۸؍ تھے۔ ان واقعات یا بیانات میں سب سے زیادہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اسی ضمن میں راجہ سنگھ کا بھی واضح طور پر ذکر ہے جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں ایک باب ۲۰۲۴ء میں ہونے والے عام انتخاب اور ریاستی الیکشن کے تعلق سے بھی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عام انتخابات اور پھرریاستی انتخابات (مہاراشٹر اور جھارکھنڈ)کے دوران نفرت انگیز بیانات عروج پر پہنچ گئے تھے۔ حکمراں پارٹی بی جے پی کے تقریباً تمام اعلیٰ لیڈر بشمول وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نفرت انگیزی میں اضافہ میں پیش پیش رہے۔ ان کے بیانات کو خاص طور اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں نفرت انگیز تقریریں اب صرف انتہا پسند عناصر تک محدود نہیں رہیں بلکہ یہ ایک اہم سیاسی ہتھیار بن چکی ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، یو ٹیوب اور ایکس پر نفرت انگیز موادکی بھرمار ہے اور ان پلیٹ فارمز کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں ۹۹۵؍ ویڈیوز نشان زد کئے گئے جو نفرت انگیز مواد پر مبنی تھےجن میں ۴۹۵؍ ویڈیوز فیس بک پر اور ۲۱۱؍ ویڈیوز یوٹیوب پر نشر ہوئے ۔ اگرچہ ان پلیٹ فارمز کی پالیسیاں نفرت انگیز مواد کی اجازت نہیں دیتیں لیکن ہندوستان کے معاملے میں ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
رپورٹ میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لوجہاد، زمین جہا د اور آبادی جہاد جیسے بے بنیاد نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ نظریات بی جے پی لیڈروں اور ان کے حواریوں کے ذریعے عام کئے جارہے ہیں۔ اس رپورٹ میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ دونوں ہی ادارے اس نفرت انگیزی کو روک سکتے ہیں لیکن یہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا کہ بھارت میں نفرت انگیز بیانات کا معمول بن جانا ملک کی جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر اس مسئلے کو روکا نہ گیا تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔