Updated: August 14, 2024, 11:25 PM IST
| New Delhi
ہریانہ حکومت کو اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب یوم آزادی کے موقع پر دئے جانے والے شجاعت ایوارڈ سے وہ چھ نام غائب تھے جن کی سفارش ہریانہ حکومت نے کی تھی، یہ وہی افسران تھے جنہوں نے کسان مارچ کو بے جا طاقت کا استعمال کرکے ہریانہ کی سرحد پار کرکے دہلی جانے سے روکا تھا۔
کسانوں کے دہلی مارچ کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
مرکزی وزارت برائے امور داخلہ کے ذریعے یوم آزادی کے موقع پر جاری کی گئی گالنٹری( شجاعت) ایوارڈ کی فہرست میں حیرت انگیز طور پر وہ چھ نام شامل نہیں ہیں جن کی ہریانہ حکومت نے سفارش کی تھی ۔ ہریانہ کی جانب سے کسان مارچ کے دوران کسانوں کو دہلی جانے سے روکنے والے پولیس افسران کے نام گالنٹری ( شجاعت) ایوارڈ کیلئے بھیجے گئے تھے۔ان افسران میں تین آئی پی ایس افسربھی شامل تھے۔ان میں سباس کبیراج( انسپکٹر جنرل آف پولیس کرنال)، جشن دیپ رندھاوا( سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کروکشیتر)، سومیت کمار ( سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جند) کے نام شامل تھے، اس کے علاوہ تین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امت بھاٹیہ، نریندر سنگھ، اور رام کمار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’کسی کا باپ بھی اس اسکیم کے پیسے واپس نہیں لے سکتا ‘‘ روی رانا کے متنازع بیان پر ہنگامہ
ان افسران کا نام شجاعت ایوارڈ کی فہرست سے خارج ہونا ہریانہ حکومت کیلئے شرمندگی کا سبب بنا، جسےپہلے ہی ان افسران کے نام کی سفارش کرنے پر تنقید کا سامنا تھا۔واضح رہے کہ فروری میں ہزاروں کسانوں نے دہلی تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پولیس کے ذریعے بے جا طاقت کا استعمال کرکے انہیں ہریانہ سرحد پار کرنے سے روکا گیا، جس کے نتیجے میں ایک کسان کی موت واقع ہو گئی تھی جبکہ متعدد کسان زخمی ہو گئے تھے۔اس واقعہ میں وہ تمام افسران شامل تھے جن کی سفارش ہریانہ سرکار نے اس ایوارڈ کیلئے کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینی صحافیوں سے اظہار ہمدردی کی سزا، مشہور پیانسٹ کا شو منسوخ کردیا گیا
ہریانہ حکومت کے ذریعے آن لائن سفارش ارسال کرنے کے بعد ہریانہ کے پرنسپل ہوم سیکریٹری نے تمام سفارشی افسران کے ذریعے کی گئی کسانوں پر فائرنگ کی تفصیلات طلب کی، ساتھ ہی مظاہرہ کر رہے کسانوں پر عائد کئے گئے مجرمانہ معاملات کی حیثیت کی بھی معلومات طلب کی، یہ تمام چیزیں شجاعت ایوارڈ کی درخواست کا حصہ ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس شجاعت ایوارڈسے ان پولیس افسران کو نوازا جاتا ہے جنہوں نے ملک دشمنوں اور دہشت گردوں سے مقابلہ کیا ہو۔لیکن وزارت امور داخلہ کا بھی اس انتخاب پر حیرانی کا اظہار کرنا اس باوقار قومی اعزاز کیلئے سفارش کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگاتا ہے ، خاص کر ان آئین نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں پر جو متنازع ہوں۔