• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرزا پور میں انوپریا پٹیل کے راستےمیں ایک نہیں کئی رکاوٹیں، سماجوادی پارٹی کے امیدوار سے سخت مقابلہ

Updated: May 22, 2024, 1:29 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

حکومت مخالف رجحان کے ساتھ ہی انہیں اپنی بہن پلّوی پٹیل کی پارٹی کی طرف سے پٹیل امیدوار اُتار دینے سے پٹیل ووٹوں کی تقسیم کا بھی خطرہ ہے، بی ایس پی کا برہمن امیدوار بھی انہی کا ووٹ کاٹ رہا ہے۔

Union Minister Anupriya Patel. Photo: INN
مرکزی وزیر انوپریا پٹیل۔ تصویر : آئی این این

مرزا پور پارلیمانی حلقے میں انتخابی مساوات کا جائزہ لیں یا کاغذ پر سیاسی جماعتوں کی پوزیشن دیکھیں تو اپنا دل (سونے لال پٹیل) کی سربراہ انوپریا پٹیل کیلئے کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن میں ہار جیت کا فیصلہ انتخابی مساوات دیکھ کریا پھر کاغذی صورتحال پر نہیں ہوگا بلکہ یہ مقابلہ سیاسی زمین پر ہوگا اور وہ زمین انوپریا پٹیل کیلئے اس بار کافی سخت معلوم ہورہی ہے۔ 
 ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں بی جے پی کے ساتھ اتحادکرکے انوپریا پٹیل لگاتار دو مرتبہ لوک سبھا میں مرزا پور پارلیمانی حلقے کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ ۲۰۲۴ء میں وہ ایک بار پھر این ڈی اے کی امیدوار ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتی ہیں تو مرزا پور لوک سبھا میں ایک تاریخ رقم کریں گی کیونکہ اس سے قبل وہاں سے کوئی بھی تین بارکامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ انوپریا سے قبل جان این ولسن (۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۷ء میں )، عزیز امام (۱۹۷۱ء اور ۱۹۸۰ء میں )، اوما کانت مشرا (۱۹۸۱ء اور ۱۹۸۴ء میں )، وریندر سنگھ (۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۸ء میں ) اور اپنے زمانے کی خطرناک ڈاکو پھولن دیوی (۱۹۹۶ء اور ۱۹۹۹ء میں ) ۲۔ ۲؍ بار کامیاب ہوچکے ہیں۔ مرزا پور کےعوام نے ان میں سے کسی کو بھی تیسری مرتبہ نمائندگی کا موقع نہیں دیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: پانچویں مرحلے کی پولنگ کے اعدادو شمار سے سیاسی پارٹیاں بے چین

انوپریا پٹیل مرکزی وزیر ہیں ... اوریہی ان کی جیت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بتائی جارہی ہے۔ مرکز میں وزیر ہونے کی وجہ سے انہیں ’حکومت مخالف رجحان‘ کا شدت سے سامنا ہے۔ جن توقعات کے ساتھ لوگوں نے انہیں ووٹ دیا تھا، اس پر انوپریا کھری نہیں اُتریں۔ ان کا اصل مقابلہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار ’رمیش چند بند‘ سے ہے جنہیں اتحاد کی وجہ سے کانگریس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’رمیش چند بند‘ بھدوہی لوک سبھا حلقے سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ہیں اور وہاں سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے سماجوادی پارٹی میں آئے ہیں۔ اس سے قبل وہ تین بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں ۔ بھدوہی اور مرزا لوک سبھا پہلے ایک ہی تھا، ۲۰۰۹ء میں اسے الگ الگ کیا گیا۔ ایسے میں رمیش چند بند کا یہاں کا خاصا دبدبہ ہے۔ انوپریا پٹیل کے راستے کی دوسری بڑی رکاوٹ ان کی بہن پلّوی پٹیل ہیں جو پارٹی کی تقسیم کے بعد اس کے دوسرے حصے اپنا دل (کمیرا وادی) کی سربراہ ہیں۔ مرزا پور سے انہوں نے ایک پٹیل (دولت سنگھ پٹیل) کو میدان میں اتار دیا ہے۔ ان حالات میں پٹیل ووٹوں کا تقسیم ہونا ایک فطری امر ہے۔ دولت پٹیل کا لوک سبھا حلقے کے تحت آنے والے ۲؍ اسمبلی حلقوں (چنار اور مڑیہان ) میں ان کا خاصا رسوخ ہے۔ طلبہ لیڈر کے طور پر اپنا سیاسی کریئر شروع کرنے والے دولت سنگھ پٹیل ایک صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں۔ ان کا جیتنا آسان تو نہیں ہے لیکن انوپریا پٹیل کا راستہ روکنے کی طاقت ضرور رکھتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ پلوی پٹیل نے بہن کی راہ میں کانٹے نہیں کیلیں بچھا دی ہیں۔ 
  انوپریا کے راستے کی تیسری بڑی رکاوٹ بی ایس پی کے امیدوار منیش ترپاٹھی ہیں۔ ایک برہمن ہونے کی وجہ سے جتنا بھی ووٹ حاصل کریں گے، وہ انوپریا کے حصے ہی کے ووٹ ہوں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مرزا پور لوک سبھا حلقے میں ایک لاکھ ۵۰؍ ہزار برہمن اور تین لاکھ دلت ووٹ ہیں۔ بی ایس پی امیدوار ان میں سے کتنا ووٹ لے پاتے ہیں، وہی طے کرے گا کہ انوپریا اس بار دہلی جاپائیں گی یا نہیں ؟ وہاں پر۳؍ لاکھ ۵۰؍ ہزار پٹیل، ایک لاکھ ۵۰؍ ہزار مسلم، ایک لاکھ یادو، ایک لاکھ ۵۰؍ ہزار بند اور ایک لاکھ ۵۰؍ ہزار موریہ کشواہا ہیں۔ 
  مرزا پور میں اصل مقابلہ انوپریا پٹیل اور رمیش چند بند کے درمیان ہی ہے البتہ ان میں سے کامیاب کون ہوگا، اس کا فیصلہ پلوی کی پارٹی اور بی ایس پی کی کارکردگی سے طے ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK