وزارت خارجہ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ انہیں بنگلہ دیشی سفارتی نوٹ موصول ہوا ہے لیکن شیخ حسینہ کی حوالگی پر فیصلہ کرنے کی انہیں کوئی جلدی نہیں ہے
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 10:58 PM IST | New Delhi
وزارت خارجہ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ انہیں بنگلہ دیشی سفارتی نوٹ موصول ہوا ہے لیکن شیخ حسینہ کی حوالگی پر فیصلہ کرنے کی انہیں کوئی جلدی نہیں ہے
پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کے تعلق سے گزشتہ روز بنگلہ دیش نے ایک سفارتی نوٹ بھیج کر ہندوستان سے باقاعدہ مطالبہ کردیا ہے کہ وہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے تاکہ ان کے خلاف مقدمات چلائے جاسکیں۔ منگل کو وزارت خارجہ کے باوثوق ذرائع نے سفارتی نوٹ موصول ہونے کی تصدیق تو کردی لیکن ان کی حوالگی کے تعلق سے خاموشی اختیار کرلی ۔ذرائع نے صرف اتنا کہا کہ ہندوستان کو شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی محمد یونس حکومت کے حوالے کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ سرکار اس پر ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ باوثوق ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی دوست رہی حسینہ کو حکومت واپس بھیجنے کے موڈ میں نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسی بات یا ضرورت پیش آہی جاتی ہے تو اس پر ہر پہلو سے غور کیا جائے گا۔
وزارت خارجہ کے قریبی ذرائع نے کہا کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہمیں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن سے حوالگی کی درخواست کے بارے میں ایک زبانی نوٹ موصول ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے کیوںکہ یہ صرف زبانی نوٹ ہے۔ واضح رہے کہ زبانی نوٹ ایسا سفارتی پیغام ہوتا ہے جس پر کسی کا دستخط یا نام نہیں ہوتا ہے ۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کو اسی سال ۵؍ اگست کو اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی تھی۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت تب سے انہیں واپس بھیجنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عبوری حکومت کے خارجہ امور کے مشیر توحید حسین نے سفارتی نوٹ بھیجے جانے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان کو مطلع کیا ہے اور عدالتی مقاصد کے لئےشیخ حسینہ کی واپسی کی درخواست کی ہے۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کے مشیر برائے امور داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد جہانگیر عالم چودھری نے کہا کہ ان کی وزارت نے معزول وزیراعظم کی ہندوستان سے واپسی کے لئے خط لکھا ہے۔ ہم نے ان کی حوالگی سے متعلق وزارت خارجہ کو یہ خط بھیجا ہے۔ چونکہ ہندوستان کا ہمارے ساتھ حوالگی کا معاہدہ ہے اس لئے وہ انکار نہیں کرسکتے ۔
دریں اثناء اس معاملے میں بین الاقوامی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو پرتشدد ہجوم کے زور پر اقتدار میں ہے۔ اس حکومت کی کوئی آئینی شناخت یا حیثیت نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں انہیں ہندوستان سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔شیخ حسینہ پاکستان کے خلاف بغاوت کی علامت ہیں اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا مقصد شیخ حسینہ کو جیل میں ڈال کر قتل کرنا ہے۔ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش بھیجنا انہیں مسلح اور جنونی افراد کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا۔ ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کے عوام شیخ حسینہ سے ناراض تھے۔ وہ کسی حد تک ہندوستان سے بھی ناراض تھے۔ کیونکہ انہیں لگا کہ ہندوستان نے شیخ حسینہ کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے وہ ڈکٹیٹر بن گئیں لیکن محمد یونس کی حکومت اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے اسے مزید بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہندستان نے شیخ حسینہ کو نہ تو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور نہ ہی ان کے ذریعے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس نے شیخ حسینہ کو سابق وزیر اعظم تسلیم کر لیا ہے اسی لئے نئی حکومت سے بات چیت بھی شروع کردی ہے لیکن محمد یونس کی حکومت ہندوستان سے براہ راست نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔