ممبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب ،کہا کہ وقف املاک مسلمانوں کی پرائیویٹ پراپرٹی ہے لیکن بی جے پی اس کیخلاف پروپیگنڈہ کررہی ہے
EPAPER
Updated: September 26, 2024, 12:31 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
ممبئی میں پریس کانفرنس سے خطاب ،کہا کہ وقف املاک مسلمانوں کی پرائیویٹ پراپرٹی ہے لیکن بی جے پی اس کیخلاف پروپیگنڈہ کررہی ہے
وقف بل کیلئے تشکیل دی گئی جے پی سی کے رکن اور ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بدھ کو ممبئی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ مودی کی حکومت نے وقف املا ک کےتحفظ کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں سے وقف املاک چھیننے کیلئے یہ ترمیمی بل بنایا ہے۔ ناگپاڑہ میں منعقدہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس پریس کانفرنس میں ایم آئی ایم کے ممبئی کے صدر رئیس لشکریہ اور سابق رکن اسمبلی وارث پٹھان بھی موجود تھے۔جے پی سی میں وقف ترمیمی بل کی تفصیلات پوچھنے پر اویسی نے کہاکہ پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی ہو یا جے پی سی ہو اس کے معاملات خفیہ ہوتے ہیں اس لئے مَیں اس تعلق سے کچھ نہیں بتا سکتا ہوں البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ مودی حکومت وقف کی گئی املاک جو پرائیویٹ پراپرٹی ہے ، اسے چھین کر اس پر قبضہ کرنے کیلئے یہ ترمیمی بل لائی ہے۔
اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ وقف املاک مسلمانوں کی پرائیویٹ پراپرٹی ہے جبکہ بی جے پی اسے سرکاری پراپرٹی بتا رہی ہے جوکہ بالکل غلط ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وقف بورڈ کے پاس ملک میں ۹؍ لاکھ ۴۰؍ہزار ایکڑ زمین ہے اور یہ افواہ بھی پھیلائی جارہی ہےکہ آرمی اور ریلویز کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف بورڈ کے پاس ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام باتیں بالکل جھوٹ ہیں۔ ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اویسی نے تفصیل سے بتایا کہ ملک کے ۳۲؍ وقف بورڈ کی کل وقف املاک ۹؍لاکھ ۴۰ ہزار ایکڑ زمین ہے لیکن آپ تمل ناڈو، آدھرا، تلنگانہ اور ادیشہ کے ۱۳؍ ہندو اینڈومنٹ بورڈ کی پراپرٹی دیکھیں تو ان ۴؍ ریاستوں میں ہی ہندو بورڈ کی ۱۰؍ لاکھ ایکڑ زمین ہے۔ اس کی تصدیق سی اے جی نےبھی کی ہے۔انہوںنے مزید کہاکہ جس طرح ہندو مذہب میں املا ک ’دان ‘ کر دی جاتی ہے،اسی طرح مسلمانوں کے ذریعے املاک وقف کی جاتی ہے تاکہ عوامی فلاح کے کام ہو سکیں۔ ہمارا سوال یہی ہے کہ جب یہ مسلمانوں کی پراپرٹی ہے تو اس میں حکومت کا عمل دخل کیوں ؟یہ آئین کے آرٹیکل ۲۶؍کی خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب پر آزادنہ طور پر عمل کر سکتے ہیں اور اپنی ملکیت کا استعمال قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جیسے چاہےویسے کرسکتے ہیں۔ اویسی نے یاد دلایا کہ مودی سرکاری نے وقف املاک کو بچانے یا اس کی ترقی کیلئے وقف ترمیمی بل پیش نہیں کیا ہے بلکہ اس لئے لایا ہے تاکہ ہمیشہ کیلئے وقف بورڈ کو ختم کر دیا جائے۔ اویسی نے وقف ترمیمی بل کے بخیے ادھیڑ تے ہوئے بتایا کہ مثلاً وقف کے ۱۹۹۵ء قانون میں ’وقف بائے یوزر‘ ہے۔کسی جگہ پر نماز ہو رہی ہے، یتیم خانہ اور قبرستان ہے وغیرہ تو اسے وقف مان لیا جاتا ہے لیکن بی جے پی نے وقف ترمیمی بل میں ’وقف بائے یوزر‘ ختم کر نے کی کوشش کی ہے۔ دوسری جانب ہندو اینڈومنٹ بورڈ میں’ بائے یوز ر‘ کی زمین کی شق برقرار ہے۔اسے ایک او ر مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اتر پردیش میں ایک لاکھ ۲۱؍ ہزار رجسٹرڈ وقف املا ک ہیں اوریہ املاک سنی وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے ،ان میں سے ایک لاکھ ۱۲؍ہزار تو وقف بائے یوزر‘ ہے۔ اب جب وقف بائے یوزر ختم کر دیا جائے گا تو کون سا قانون اس ملکیت پر نافذ ہوگا؟ اس طرح یہ املاک سرکارہتھیا لے گی۔رکن پارلیمان اویسی نے یہ بھی بتایا کہ ترمیمی بل میں ایک شرط یہ لگائی گئی ہے کہ جو ۵؍ سال تک ’با عمل مسلمان‘ ہوگا وہ ہی اپنی املاک وقف کر سکتا ہے لیکن حکومت کواس کا فیصلہ کا کوئی اختیارحاصل نہیں ہے کہ کون با عمل مسلمان ہے اور کون نہیں !ایسا قانون ہندو مذہب میں نہیں تو پھر مسلمانوں پر کیوں لاگو کیا جارہا ہے ؟ اسد الدین اویسی نے کہا کہ وقف ترمیمی بل میں ایک اور خطرناک ترمیم یہ کی جارہی ہےکہ وقف کی جو بھی ملکیت جو حکومت کے قبضے میں ہوگی اس کا فیصلہ ضلع کلکٹر کرے گا۔کلکٹر خود گورنمنٹ کا نمائندہ ہوتا ہے تو کیا کلکٹر کے خلاف معاملہ میں وہ خود جج بن سکتا ہے؟یہ تو فطری انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے ۔ سروے کمشنر سے سروے کرنے کا حق چھین کر کلکٹر کو سروے کرنے کا اختیار دیاگیا ہے۔وہ حکومت کے خلاف فیصلہ کبھی نہیں سنائے گا اور اس طرح وقف کی ملکیت حکومت اپنے قبضے میںلے لے گی۔انہوںنے مزید کہا کہ سینٹرل وقف کونسل میں ایک غیر مسلم رکن ہوتا ہےباقی سب اراکین مسلم ہوتے ہیں۔اسے ختم کر کے اکثریتی اراکین ایسے لائے جائیں گے جو جو غیر مسلم ہوں گے جبکہ ریاستی وقف بورڈ میں سبھی اراکین مسلم ہوتے ہیں لیکن ترمیمی بل میں ۸؍ تا ۹؍ غیر مسلم اراکین کو منتخب کرنے کی شق ہے۔ متولی کا الیکشن ہوتا ہے لیکن اسے ہٹا کر اراکین کو نامزد کرنے کی تجویز ترمیمی بل میں دی گئی ہے۔ اس طرح مذکورہ بل پوری طرح سے مسلمانوں سے ملکیت چھیننے اور وقف بورڈ کے اختیارات ختم کرنے کی سازش ہے۔