• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

محمد علی روڈ :کاروبارکا وقت متعین کرنے سے مکینوں کو راحت

Updated: October 14, 2024, 10:35 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

زکریا اسٹریٹ ، بازارگلی کے مکینوں، دکانداروں او رپھیری والوں کے باہمی مشورےاور رکن اسمبلی کی کوششوں سے یہاںکی بھیڑ بھاڑ کم کرنے ،گندگی اور غلاظت ختم کرنے میں مددملی

Zakaria Street on Muhammad Ali Road was crowded from morning to night
محمد علی روڈ پر واقع زکریہ اسٹریٹ جہاں صبح سے رات تک بھیڑ رہتی تھی

یہاں کے زکریا اسٹریٹ ، بازارگلی ( چاول گلی ) کے مکینوں، دکانداروں او رپھیری والوں کے باہمی مشورے اور مقامی رکن اسمبلی امین پٹیل اور سماجی کارکن امین پاریکھ کی کوششوں سے گلی کی بھیڑ بھاڑ کوکم کرنے ، گندگی اور غلاظت ختم کرنے ، کاروباری وقت متعین کرنے اور محلے میں صفائی رکھنے میں کامیابی ملی ہے ۔ اس اقدام سے  یہاں کےمقامی باشندے ، دکاندار اور پھیری والے مطمئن ہیں ۔ 
 واضح رہے کہ یہاں صبح ۷؍ سے رات ایک بجے تک جاری رہنے والے کاروبار سے مقامی لوگ بہت پریشان تھے۔ ان کا سکون سے گھروں میں رہنا محال تھا  جبکہ گلی میں بازار لگنے سے لوگوں کا پیدل چلنا مشکل تھا ۔ ہنگامی صورت میں لوگ یہاں پھنس جاتے تھے ۔ بیمارکو گود میں اُٹھاکر مین روڈ سے ٹیکسی پکڑنی پڑتی تھی ۔ گلی میں ٹیکسی کے نہ آنے سے مقامی لوگ اپنا سامان اُٹھاکر مین روڈ سے ٹیکسی پکڑنے پر مجبور تھے ۔  اس کے علاوہ صفائی کرنے کی گنجائش نہ ہونے سے کئی ہفتوں صفائی نہیں ہو پاتی تھی ۔ اس طرح کےمتعدد مسائل سے یہاں کے لوگ دوچار تھے ۔ ان ہی مسائل کے حل کیلئے گزشتہ دنوں یہاں کے مکینوں نے مقامی رکن اسمبلی امین پٹیل سے تحریری شکایت کی تھی ۔ جس کی بناپر امین پٹیل نے گلی کا دورہ کرکےمقامی مکینوں ، دکانداروں اور پھیری والوںکی مشترکہ رائے سے دوپہر ۲؍ بجے پھیری والوں اور رات  ۹؍ بجے دکانیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس سے مقامی باشندوں کو یہاں کی بے انتہا بھیڑ اور گہماگہمی سے نجات ملی  ہے ۔ دوپہر ۲؍بجے پھیری والوں کے ہٹ جانے پر بی ایم سی اہلکار روزانہ دوپہر۳؍بجے گلی کی صفائی کر رہے ہیں جس سے گلی میں صفائی ہونے کے ساتھ ٹریفک کے آمدورفت میں آسانی ہوئی ہے ۔
 یہاں کی سماجی کارکن زینب خان کے بقول’’ پہلے دکان والے اپنی آگے کی جگہ پر بھی دکان لگاتے تھے ،اس کےبعد باکڑے والے اپنی دکان لگاتے تھے ۔ گلی کےدونوں سمت اس طرح دکانوں اور بائیک کی پارکنگ سے جگہ تنگ ہو جاتی تھی ۔ ایسے میں خوردونوش کی اشیاء کی خریداری کیلئے گلی میں آنے والوںکوبڑی دقت ہوتی تھی۔ ان تمام پریشانیوں کے علاوہ صبح ۷؍بجے سے لگنے والے باکڑے اگر شام ۴؍ بجے بندبھی ہوجاتے تو یہاں کے دکانداروں کی دکانیں رات ایک بجے تک کھلی رہتی تھیں ۔   دکانوں میں ہونے والی کھٹ پٹ کی آوازوں سے مکینوں کا سکون سے رہنا مشکل تھا ۔ اسی وجہ سے یہاں کے مکینوں نے اس ضمن میں مقامی رکن اسمبلی امین پٹیل سے رابطہ کر کے مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کیا گیا ۔‘‘
 چاول گلی کی جمعہ مسجد بلڈنگ میں رہائش پزیر عبدالحمید گوروے نے اس نمائندہ کو بتایا کہ ’’ بازار کے وقت عورتوں اور مردوں کی بھیڑ ، بائیک کی پارکنگ اور خریداری کیلئے بائیک سے آنے والوں کی وجہ سے گلی سے تنہا انسان کاگزرنا مشکل تھا، لیکن جب سے مارکیٹ کا وقت متعین کیا گیا ہے ،بڑی آسانی ہوگئی ہے۔ بس یہ سسٹم قائم رہے یہی اپیل ہے ۔‘‘
  اسی گلی کے جیون مینشن کے ناصر احمد کے مطابق ’’۵؍ روپے کا سامان لینے کیلئے بھی لوگ اسکوٹر اور بائیک سے آکر گلی میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے راہگیروں کو یہاں سے گزرنے میں بڑی دقت ہوتی تھی ۔ جب سے بازار کا وقت طے کیا گیا ہے بڑی آسانی ہوگئی ہے ۔  
 بازار گلی کے عمر فاروق ، جو اسی گلی میں رہائش پزیر ہیں اور گوشت کا کاروبار کر تے ہیں ، نے بتایا کہ’’ مذکورہ سسٹم نافذ کئے جانے سے سب کو آسانی ہوگئی ہے ۔ ہم نے خریداروں سے ۲؍بجے سے پہلے خریداری کرنےکیلئے کہاہے، لوگ آنے بھی لگے ہیں ، اس وجہ سے ہمارے کاروبار پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ 
  چاول گلی کے کاروباری محمد عثمان نے بتایا کہ ’’ جب سے مذکورہ سسٹم نافذکیا گیاہے دوپہر کے بعد اس گلی میں سکون محسوس ہونے لگا ہے ۔ پہلے   گندگی اور غلاظت کا انبار لگا رہتا تھا، مچھروں کے بھر مار سے لوگ پریشان تھے ۔  ایمبولنس اگر آجائے تو اسے گلی کےباہر کھڑا کرنا پڑتا تھا ۔ ‘‘
 سماجی کارکن امین پاریکھ نے بتایاکہ ’’دکانوں اور باکڑوں کی حد مقرر نہ ہونے سے لوگ دکانوں کے آگے کی جگہ اور اس کے بعد کی جگہ پر پھیری والوں کاقبضہ ہوتا تھا جس سے گلی تنگ ہو جاتی تھی ۔ ہم نے دکانداروں اور پھیری والوں کی حدیں مقرر کردی ہیں ،جس سے آسانی ہوئی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK