• Fri, 24 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسلم نوجوان کی ہندو پارٹنر کو عدالت میں پیش کیا جائے :بامبے ہائی کورٹ

Updated: December 05, 2024, 12:46 PM IST | Mumbai

عدالت نے گرفتاری پر بھی روک لگائی۔ والدین ،بجرنگ دل اور دیگر تنظیموں کی شکایات کے بعد پولیس نے لڑکی کو سرکاری پناہ گاہ میں رکھا ہے۔

The court also stayed and arrested. After complaints from Prints, Bajrang Dal and other organizations, the police were captured and the girl was kept in a government shelter.
بامبے ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این اینا

ہائی کورٹ نے اپنےایک اہم فیصلے  میں ایک مسلم نوجوان کی ہندو پارٹنر کو۹؍دسمبر کو  عدالت میں پیش کئے جانے کا حکم جاری کیا ساتھ ہی ساتھ مسلمنوجوان پر لڑکی کے والدین کی جانب  سےہفتہ وصولی کا کیس درج کئے جانے پر بھی شبہات ظاہر کرتے ہوئے اس کی گرفتاری پر  عارضی روک لگادی اور ہدایت دی کہ جس دن عدالت میں لڑکی کو پیش کیا جائے گا، اس دن نوجوان بھی عدالت میں حاضر رہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کی جسٹس بھارتی ڈانگرے اور جسٹس منجوشا دیشپانڈےپر مشتمل بینچ مسلم نوجوان کی جانب سے حبس بیجا ( قانونی اصطلاح میں جسے ہبیس کارہس کہا جاتاہےجس کے تحت عدالت پولیس کو حکم دیتی ہےکہ وہ متعلقہ شخص جس کے تعلق سے عرضداشت داخل کی گئی ہے،  اسے زندہ یا مردہ عدالت میں پیش کیا جائے )کے تحت دائر کی گئی ایک عرضداشت کی سماعت کر رہی تھی جس میں پولیس کی جانب سے خاتون کو چمبور  میں ریاستی حکومت کے زیر انتظام چلائی جانے والی  خواتین کی پناہ گاہ میں رکھے جانے کو غیرقانونی  و بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیاگیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: پینے کے پانی کے بحران پر راجیہ سبھا میں اہم بحث، کئی مشورے دئیے گئے

 عدالت نے خاتون کے والدین کی جانب سے مسلم نوجوان پر ہفتہ وصولی کے مقدمے کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ۹؍ دسمبر بروز پیر معاملے کی اگلی سماعت تک نوجوان کو گرفتار نہ کیا جائے   نیز عدالت  دیکھنا چاہتی ہےکہ ماجرہ کیا ہے ؟
 نوجوان نے ہفتہ وصولی کے معاملے میں قبل ازگرفتاری کی درخواست ضمانت بھی داخل کی ہے جس کی سماعت  سیشن عدالت میں۵؍دسمبر کو ہونے والی ہے۔عرضداشت کے مطابق خاتون کو اس کے والدین اور کئی فریقین بشمول بجرنگ دل اور دیگر تنظیموں کی شکایات کے بعد پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے  سرکاری پناہ گاہ میں رکھاہے۔ وکلاء کے مطابق خاتون کو سرکاری پناہ میں رکھے جانے کے بعد عرضی گزار نے عدالت سے رجوع کیا اور دلیل دی کہ  خاتون کے متعدد مرتبہ یہ  کہنے کے باوجود کہ وہ بغیر کسی جبر کے  رضامندی سے اس  کے ہمراہ  ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ میں  زندگی گزار رہی ہے  نیز اس نے اس ضمن میں ایک نوٹری شدہ حلف نامہ بھی  دیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اس کا نوجوان کے ساتھ رہنے کا انتخاب اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق  تھا اور وہ  بغیر کسی جبر یا غیرضروری اثر پر مبنی تھا۔
 درخواست گزار کے وکلاء  لوکیش زیدے،   آصف لطیف شیخ اور عابد عباس سید نے عدالت کو بتلایا کہ پولیس کے روبرو تمام حقائق حلف نامہ کی نقول اور دیگر دستاویزات پیش کئے گئے تھے ، اس کے باوجود   پولیس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے  غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہے جو کہ   آئین کے آرٹیکل۲۱؍ کے تحت اس کے جینے اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
 ریاستی حکومت کی جانب  سے ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر شرمیلا کوشک نے عدالت میں پیروی کی جبکہ خاتون کے والدین  کی جانب سے وکیل راجیش شرکے اور انجلی جوشی نے عرضداشت کی مخالفت کی ۔عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت۹؍ دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK