انبیائے کرام علیہ السلام کی ہر امت کو ایسے امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے جن میں ان کے جذبۂ ایمانی اور ان کے صبر و شکر کی آزمائش ہوتی ہے اور اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہل ہل جاتے ہیں۔ اور تو اور نبی بھی اس وقت پکار اٹھتے ہیں کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟
EPAPER
Updated: May 17, 2024, 12:23 PM IST | Allah Baksh Faridi | Mumbai
انبیائے کرام علیہ السلام کی ہر امت کو ایسے امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے جن میں ان کے جذبۂ ایمانی اور ان کے صبر و شکر کی آزمائش ہوتی ہے اور اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہل ہل جاتے ہیں۔ اور تو اور نبی بھی اس وقت پکار اٹھتے ہیں کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟
انبیائے کرام علیہ السلام کی ہر امت کو ایسے امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے جن میں ان کے جذبۂ ایمانی اور ان کے صبر و شکر کی آزمائش ہوتی ہے اور اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہل ہل جاتے ہیں۔ اور تو اور نبی بھی اس وقت پکار اٹھتے ہیں کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟یہ ایسا امتحان ہوتاہے کہ رسولوں کو بھی بظاہر حالات مایوسیوں میں گھیر لیتے ہیں ۔ دراصل اسی وقت کامیابیوں کی بنیاد پڑتی ہے، مسلسل کامیابیوں اورکامرانیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ آزمائش کی یہ بھٹی ہی امت کو دنیا میں عزت ووقار، عظمت و سربلندی عطا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کا حقدار بناتی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے ( دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور معیشت) سے، اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا دو صبر کرنے والوں (ثابت قدم رہنے والوں ) کوکہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں : ہم اللہ کے مال ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کا رب درود بھیجتا ہے اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں ۔‘‘ (سورہ البقرہ)
تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم آزمائش کی بھٹی سے ضرور گزری ہے۔ قدرت نے نوازنے سے پہلے، رفعتیں عطا کرنے سے پہلے ضرور ان کا امتحان لیا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں ؟ کتنے ثابت قدم ہیں ؟ کتنے اپنے مقاصد کے حصول پر پختہ و کار بند ہیں ؟ کہیں مصیبتیں، تکلیفیں اور سختیاں دیکھ کر پھر جانے والے تو نہیں ؟کہیں ہمت اور حوصلہ ہار جانے والے تو نہیں ؟ کہیں شدت سے گھبرا کر باطل سے مفاہمت و سمجھوتہ کر کے چین سے بیٹھ جانے والے تو نہیں ؟قدرت نے ہر قوم کو شدید آزمائش میں ڈال کر ضرور جانچا ہے، ضرور پرکھا ہے، ضرور ان کی آزمائش کی ہے۔اگر وہ ثابت قدم رہے تو ان پر اپنے انعام واکرام کی بارش کی اور انہیں قوموں کی صفوں میں عزت و وقار، عظمت و سربلندی عطا کی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں مٹھی بھر باہمت، باحوصلہ مسلمان ہر آزمائش میں پورے اترے، ہر مصیبت کا جوانمردی سے مقابلہ کیاتو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر میدان میں سرخرو کیا، ہر معرکہ میں کامیابی عطا فرمائی اور انہیں قوموں کی صفوں میں سربلند کیا اور اپنی زمین کا وارث بنایا۔شرق تا غرب، شمال تک جنوب ہمارا راج تھا اور ہمارا سکہ چلتا تھا، چار سُوہمارا رعب اور دبدبہ تھا۔
آج ہم مسلمان تعداد میں اربوں ہونے کے باوجود حوصلہ شکن ہیں، ذرا سی مصیبت آتے دیکھ کر گھٹنے ٹیک دینے والے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: حج زندگی کا ماحصل ہے!
ہم جیسے جیسے تعداد میں بڑھتے گئے مغلوب ہوتے گئے، نہ ہم میں وہ ہمت رہی، نہ وہ حوصلہ رہا، نہ وہ پختگی رہی، نہ وہ اخوت و بھائی چارہ رہا، نہ ہماری اپنی صفوں میں اتحاد رہا۔ سب مل کر دشمن کا مقابلہ کیا کرتے جب یہ اپنی صفوں میں اتحاد کھو بیٹھے اور ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو گئے۔ہم اغیار کی ہر سازش کا شکار ہوئے، دشمن کے سب ہتھکنڈے ہم پر کار گر ثابت ہوئے اور ہماری قوت و طاقت کو بہا لے گئے۔آج ہم دنیا میں ہر جگہ ذلیل و رسواء ہیں، خواری و ناداری ہم پرمسلط ہے۔دنیا میں چار سو جس سمت نظر دوڑائیں ہم مسلمان ہی ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ظلم و جفا کی چکی میں پس رہے ہیں۔
ہمارا یہ حال کیوں نہ ہوتا جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا، ضمیر فروش بنے، اپنے اسلامی کلچر، تہذیب و تمدن، اصول و روایات سے غداری کی اور اغیار کی تہذیب و کلچر کو اپنایا۔آج ہمارے اسلامی معاشرہ میں زندگی کے ہر شعبہ میں اغیار کا کلچر غالب نظر آتا ہے خواہ وہ معاشرت و رہن سہن ہو، لباس ہو یا واضح قطع، یا ظاہری شکل و صورت۔ جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہمیں اپنے ہر رنگ میں رنگ لیابلکہ ہم تقلید و نقل میں اخلاقیات کی سب حدیں پار کر کے ان سے بھی آگے گئے۔ہم نے استقامت و ثابت قدمی کا دامن چھوڑ دیا۔