Inquilab Logo Happiest Places to Work

میانمار: جان لیوا زلزلے سے متاثرہ ہزاروں خاندان ضروریات زندگی سے محروم

Updated: April 20, 2025, 7:05 PM IST | Yangon

میانمار میں آنے والے ہولناک زلزلے سے تین ہفتے بعد بھی ہزاروں متاثرہ خاندان پناہ، پانی اور ادویات سے محروم ہیں جبکہ زلزلے کے متواتر ثانوی جھٹکوں نے لوگوں کے خوف اور تکالیف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

Myanmar Thousands remain in crisis weeks after deadly earthquakes. Photo: INN
میانمار میں مہلک زلزلوں کے بعد بھی ہزاروں افراد بحران کا شکار ہیں۔۔ تصویر: آئی این این

۲۸؍ مارچ کو ملک کے وسطی علاقوں میں آنے والے زلزلے سے ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد ۳؍ ہزار ۷۰۰؍تک پہنچ گئی ہے جبکہ ۴؍ ہزار ۸۰۰؍افراد زخمی اور کم از کم ۱۲۹؍ لاپتہ ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ انسانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ ملک سے واضح اطلاعات سامنے نہیں آتیں جبکہ معلومات جمع کرنے اور ان کی تصدیق کے عمل میں بھی مسائل درپیش ہیں۔امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ اب تک زلزلے کے۱۴۰؍ ثانوی جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں جن میں بعض کی شدت ۹ء۵ ؍تک تھی۔ ان حالات میں بالخصوص بچے اور بے گھر ہونے والے خاندان شدید خوف کا شکار ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ میانمار کے وسطی علاقے میں زلزلے کے ثانوی جھٹکے تقریباً روزانہ آ رہے ہیں جس سے خوف و غیریقینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور امدادی کارروائیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ بہت سے خاندان اب بھی کھلے آسمان تلے سوتے ہیں جنہیں شدید موسمی کیفیات، بیماریوں، زہریلے حشرات اور سانپوں سے خطرات لاحق ہیں۔ خدشہ ہے کہ ثانوی جھٹکے کئی ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں کیونکہ ۲۸؍مارچ کے زلزلے کی شدت بہت زیادہ تھی اور میانمار ایسے خطے میں واقع ہے جہاں تواتر سے زلزلے آتے رہتے ہیں۔

بنیادی ضروریات کا بحران
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پانی کا نظام تباہ ہو گیا ہے اور تقریباً ۴۳؍ لاکھ لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت درکار ہے۔ بجلی کے نظام کو نقصان پہنچنے کے سبب متعدد علاقوں میں سیوریج کا پانی نکالنے والے پمپ غیرفعال ہیں۔پانی کی فراہمی کا نظام تباہ ہو جانے کے باعث لوگ غیرمحفوظ آبی ذرائع سے کام لینے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں پانی سے جنم لینے والی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ غذائی عدم تحفظ کے باعث بچوں میں غذائی قلت بھی بڑھ رہی ہے۔زلزلے میں تعلیمی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ جون میں نیا تعلیمی سال شروع ہونا ہے جبکہ سیکڑوں سکولوں کی تعمیرنو اور وہاں صاف پانی، بیت الخلا اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

غذائی قلت کا خدشہ
زلزلہ ایسے وقت آیا ہے جب میانمار میں خشک موسم ہے اور اس آفت سے زرعی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ملک میں اناج کی ایک تہائی پیداوار انہی علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ ۸۰؍ فیصد مکئی بھی یہی خطہ پیدا کرتا ہے۔کھیتوں اور متعلقہ زرعی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے سے خوراک کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے جبکہ مون سون میں کاشت کا موسم قریب آ رہا ہے۔کھیتوں کو وسیع پیمانے پر ہونے والے نقصان سے بڑی تعداد میں ان لوگوں کے روزگار بھی متاثر ہوئے ہیں جن کا دارومدار زراعت اور اس سے وابستہ شعبوں پر ہے۔

امدادی وسائل کے لیے اپیل
مشکل حالات کے باوجود امدادی اداروں اور ان کے مقامی شراکت داروں نے ۲؍ لاکھ ۴۰؍ ہزار سے زیادہ لوگوں کو خوراک، طبی سازوسامان اور بنیادی ضرورت کی اشیا پہنچائی ہیں۔ اب تک ۱۰۰؍ ٹن سے زیادہ طبی سامان مہیا کیا جا چکا ہے جبکہ متحرک طبی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں زخمیوں کا علاج کرنے اور انہیں نفسیاتی مدد دینے میں مصروف ہیں۔`اوچا` نے کہا ہے کہ یہ کوششیں کافی نہیں اور تباہی کا حجم مزید اقدامات، وسائل اور رسائی کا تقاضا کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتے ۱۱؍ لاکھ لوگوں کو ہنگامی مدد پہنچانے کے لیے ۲۷۵؍ ملین ڈالر مہیا کرنے کی اپیل جاری کی تھی۔ قبل ازیں ملک میں جنگ اور قدرتی آفات سے بری طرح متاثرہ  ۵۵؍ لاکھ لوگوں کی مدد کے لیے ۱ء۱؍ ارب ڈالر کے مالی وسائل فراہم کرنے کی اپیل بھی کی جا چکی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK