بے گھر ہونے کے ڈر سے پریشان حال مکینوں نے شہری انتظامیہ اور سیاسی لیڈروں سے سوال کیا کہ سر چھپانے کےلئے وہ کہاں جائیں۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 10:36 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Nala sopara
بے گھر ہونے کے ڈر سے پریشان حال مکینوں نے شہری انتظامیہ اور سیاسی لیڈروں سے سوال کیا کہ سر چھپانے کےلئے وہ کہاں جائیں۔
نالاسوپارہ: ایورشائن نگر اچولے روڈ نالا سوپارہ میں آج پیر ۲۸؍اکتوبرسے غیرقانونی عمارتوں کو توڑنے کے آغاز کی خبر سے مکین خوفزدہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔
یاد رہے کہ یہاں ۴۱؍عمارتوں میں مقیم ۸؍ ہزار پریشان حال خاندانوں کے سروں پر بے گھر کئے جانے کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ آج انہدامی کارروائی کیلئے انتباہ دیا گیا ہے۔ مکین اپنا آشیانہ بچانے کے لئے ادھر ادھر بھٹکنے پر مجبور ہیں ۔ سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان مکینوں کیلئے متبادل رہائش کا نظم کیا جائے، مگر کارپوریشن یا دیگر اتھاریٹی اس تعلق سے بالکل خاموش ہے۔ ۲۶؍اکتوبر کو انہدامی کارروائی کا انتباہ دیتے ہوئے کارپوریشن نے عمارتیں خالی کرنے کو کہا تھا اور نگر نگم نے بورڈ آویزاں کئے تھے، وہ مدت ختم ہوگئی ہے مگر مکین اپنا گھر کسی حال چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
سید ابراہیم عرف ارمان نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ یہ اطلاع ملی ہے کہ’ سی ون‘ کٹیگری میں شامل کی گئی عمارتوں کا پیر کی صبح ۷؍بجے سے انہدام کیا جائےگا۔ اس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگ کہاں جائیں، کس سے فریاد کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا حالات دیکھ کر قریب کے علاقوں میں لوگوں نے اپنے مکانات کے کرائے بھی بڑھادیئے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر لوگ مجبوراً لیں گے۔
ارمان نے یہ بھی بتایا کہ جس مہاکال نام کی عمارت میں وہ مقیم ہیں وہ محض ایک منزلہ بنی ہے اور اس میں مدرسہ و مسجد بھی ہے، اسے بھی آج توڑنے کی بازگشت ہے۔ آخر ہم لوگ کہاں جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو ہٹایا جارہا ہے اور ان کے لئے اب تک کوئی متبادل نظم نہیں کیا گیا ہے، آخر ۸؍ہزار خاندان کہاں جائیں گے، اس لئے حکومت اس جانب فوری طور پر توجہ دے۔
مکینوں کے حق آوازبلند کرنے والی ریکھا ترپاٹھی نے بھی یہی بتایا کہ آج سے انہدامی کارروائی شروع کئے جانے کی بازگشت ہے جس سے مکین بے حد پریشان ہیں کیونکہ ان کے سامنے اندھیرا ہے اور ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ مکینوں نے طے کیا ہے وہ کہیں نہیں جائیں گے اگر ان کے ساتھ زبردستی کی گئی تو وہ سامان لے کر یہیں بیٹھیں گے۔
انہوں نے پھر یہ دہرایا کہ یہاں کئی مندر اور مسجدیں بھی ہیں۔ بے گھر ہونے کے اندیشے سے بچوں کی پڑھائی رک گئی ہے، لوگوں نے کام کاج بند کردیا ہے اور کئی لوگ فکر وتردد کے سبب بیمار پڑ گئے ہیں تو کچھ خودسوزی کا فیصلہ کرچکے ہیں پھر بھی انکی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ واضح ہوکہ افسران سپریم کورٹ کے آرڈر کا حوالہ دے کر اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رہے ہیں۔