سیشن کورٹ کے جج سی وی مراٹھے کا فیصلہ ،آر ایس ایس اور بجرنگ دَل کے تمام ۱۰؍ کارکنان کی ناکافی ثبوتوں کی بناء پر گلو خلاصی
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 10:28 AM IST | Nanded
سیشن کورٹ کے جج سی وی مراٹھے کا فیصلہ ،آر ایس ایس اور بجرنگ دَل کے تمام ۱۰؍ کارکنان کی ناکافی ثبوتوں کی بناء پر گلو خلاصی
مراٹھواڑہ کے اہم شہر ناندیڑ کے پاٹ بندھارے نگر میں ۵؍ اور ۶؍ اپریل ۲۰۰۶ء کی درمیانی شب ہونے والے بم دھماکے کے کیس میں ناندیڑ سیشن کورٹ کے جج سی وی مراٹھے نے فیصلہ سناتے ہوئے آر ایس ایس اور بجرنگ دَل سے تعلق رکھنے والے تمام ۱۰؍ ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔بری ہونے والے ملزمین میں راہل پانڈے ،سنجے چودھری ،رام داس ملنگے ، ڈاکٹر امیش دیشپانڈے ،ماروتی واگھ ،یوگیش رویندر دیشپانڈے، گروراج تپتےوار،ملند اکتاٹے، منگیش پانڈے اور راکیش دھائوڑے شامل ہیں۔ اس معاملے میں سرکاری وکیل کے طورپر سی بی آئی کی طرف سے ایڈوکیٹ دلوی نے پیروی کی جبکہ وکیل دفاع کے طورپر ایڈوکیٹ پرڈکر اور ایڈوکیٹ نتن رونوال نے پیروی کی۔ عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ حیرت انگیز ضرور ہے کیوں کہ ملزمین کے تعلق سے کئی ثبوت پیش کئے گئے تھے لیکن عدالت نے کسی بھی ثبوت کو قابل اعتناء نہیںسمجھا اور ناکافی ثبوتوں کا جواز پیش کرتے ہوئے تمام ملزمین کو بری کرنے کا حکم سنادیا۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں مجموعی طور پر ۴۹؍گواہوں کے بیانات قلم بند کئے گئے۔ساتھ ہی نارکو انالیسس، کیمیکل تجزیہ اور دیگر شواہدبھی اکٹھا کئے گئے تھےلیکن عدالت نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ عمومی توقع تھی کہ اس مقدمے میں ملزمین کو سزا سنائی جائے گی، کیونکہ تحقیقات کے دوران کئی اہم حقائق منظر عام پر آئے تھے۔ دھماکے کے مقام سے زندہ بم بھی برآمد ہوا تھا اور ملزمین کے نارکو انالیسس ٹیسٹ کے دوران بھی اہم معلومات حاصل ہوئی تھیں۔ مزید برآں ملزمین کے آر ایس ایس اور بجرنگ دل سے تعلق کے ثبوت بھی پیش کئے گئے تھے۔
یاد رہے کہ یہ مقدمہ پچھلے ۱۸؍ سال سے ناندیڑ کےسیشن کورٹ میں زیر سماعت تھا اور سنیچر کو جج سی وی مراٹھے نے تمام ملزمین کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ واضح رہے کہ ۵؍اور ۶؍اپریل۲۰۰۶ء کی درمیانی رات لکشمن گنڈیاراج کونڈوار کے مکان میںبم سازی کے دوران یہ دھماکہ ہوا تھا جس میں لکشمن راج کونڈوار کے بیٹے نریش راج کونڈوار اور اس کے ساتھی ہمانشو پانسے کی موت ہو گئی تھی۔ اس واقعے میں ۴؍ دیگر افراد زخمی ہوئے تھے جن میں ماروتی کیشو واگھ، یوگیش دیشپانڈے (عرف وڈولکر)، گرو راج ٹوپٹیوار اور راہل پانڈے شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر اس واقعے کو پٹاخوں کے دھماکے کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اگلے دن مکان کی تلاشی کے دوران زندہ یعنی’ کارآمد‘ بم ملنے پر پولیس اور جانچ ایجنسیوں نے اسے بم دھماکہ تسلیم کیا۔ اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات مقامی پولیس نے کی جس کے بعد اسے اے ٹی ایس کے سپرد کردیا گیا تھا اور بعد میں مزید تفتیش کیلئے سی بی آئی اور این آئی اے کے حوالے کیا گیا۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد انصاف پسند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اتنے واضح شواہد کے باوجود ملزمین کے بری ہونے پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر کیسے اس قدر اہم شواہد عدالت کے سامنے ناقابلِ قبول ثابت ہوئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سی بی آئی اس معاملے کوہائی کورٹ میں چیلنج کرتی ہے یا پھر یہیں پر یہ معاملہ بند کردیا جاتاہے ۔ واضح رہے کہ اس معاملے کے تار ملک کے کئی دھماکوں سے جڑے ہوئے بتائے گئے تھے اور ان میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے افرادکے شامل ہونے کا بھی شبہ تھا ۔
اس معاملے میں سی بی آئی کے وکیل ایڈوکیٹ دلوی سے نمائندۂ انقلاب کے رابطہ کرنے پر انہوں نے کسی بھی طرح کی معلومات دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ پورا معاملہ سی بی آئی دیکھ رہی ہے اس لئے اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کیلئے سی بی آئی کی اجازت ضروری ہوگی ۔دوسری طرف اس معاملے میں مسلم ایڈوکیٹ فورم کے صدر ایڈوکیٹ ایوب الدین جاگیر دار نے کہا کہ اس معاملے میں سی بی آئی کےوکیل نے بہت کمزور انداز میںپیروی کی۔ سی بی آئی کی جانب سے ملزمین کے خلاف جس مؤثر انداز میں ثبوت اور گواہوں کو پیش کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ملزمین بری ہوگئے۔
ملزمین کا دفاع کرنے والے وکیل نتن رنوال نے فون پر نامہ نگار کو بتایا کہ ’’ دفاع نے گیس سلنڈر اور پٹاخوں کےسبب دھماکہ ہونے کی دلیل دی تھی جبکہ استغاثہ ملزمین کے خلاف بم بناتے وقت دھماکہ ہونے کی دلیل پیش کرتا رہا لیکن وہ اسے ثابت نہیں کرسکا ۔ ‘‘ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے چند ملزمین جالنہ ، پورنا اور پربھنی میں ہونے والے بم دھماکوں میں بھی شامل تھے ۔