جس معاملے میں موقع پر ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ جائے حادثہ پر بم بنایا جا رہا تھا، اس میں جانچ ایجنسی عدالت کے سامنے ثبوت کیسے پیش نہیں کر سکی؟ سماجی کارکنان کا سوال۔
EPAPER
Updated: January 07, 2025, 4:28 PM IST | ZA Khan | Nanded
جس معاملے میں موقع پر ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ جائے حادثہ پر بم بنایا جا رہا تھا، اس میں جانچ ایجنسی عدالت کے سامنے ثبوت کیسے پیش نہیں کر سکی؟ سماجی کارکنان کا سوال۔
۲۰۰۶ء میں ناندیڑ ضلع کے پاٹ بندھارے نگر علاقے میں ہوئے بم دھماکہ کے معاملے میں ناندیڑ کی سیشن کورٹ نے ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ تمام ملزمین کو باعزت بری کر دیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر سماج کے مختلف حلقوں میں حیرت اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی تفتیشی ایجنسیوں کی جانچ پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ سی بی آئی کے وکیل عدالت میں ملزمین کے خلاف ٹھوس ثبوت اور گواہ پیش کرنے میں کیسے ناکام رہے؟ یہاں یہ بھی سوال ابھر رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ معاملے کو جان بوجھ کرکمزور کرنے کیلئے اہم شواہد عدالت کے سامنے پیش ہی نہ کئے گئے ہوں؟
یاد رہے کہ ناندیڑ کے پاٹ بندھارے نگر میں بم سازی کے دوران ہوئے بم دھماکہ معاملہ میں ناندیڑ کی عدالت کے معزز جج سی وی مراٹھے نے ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر تمام ملزمات کو باعزت بری کرنے کا فیصلہسنایاہے ۔وکیل دفاع ایڈوکیٹ نتن رونوال نے کہا کہ جانچ ایجنسیاں ملزمین کے خلاف لگائے گئے الزامات کو عدالت کے سامنے ثابت نہیں کرسکیں جسکی وجہ سے تمام لوگ باعزت بر ی ہوگئے ۔سماجی تنظیموں کے ذمہ داران نے عدالت کے فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
ونچت بہوجن اگھاڑی کے ریاستی لیڈر فاروق احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت اور جانچ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناندیڑ کا یہ معاملہ حساس نوعیت کا تھا، جس میں آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل سے وابستہ افراد کے ملوث ہونے کا الزام تھا۔ آر ایس ایس کے سابق پرچارک یشونت شندے نے سرکاری گواہ بننے کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن عدالت نے انہیں گواہی دینے کی اجازت نہیں دی، جو انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس کے ریاستی سیکریٹری الطاف حسین نے بھی عدالت کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ۲۰۰۶ء میں دھماکے کے وقت ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ بم دھماکہ ہے اور کچھ لوگ اس مکان میں بم بنا رہے تھے، لیکن مقامی پولیس نے اسے پٹاخہ دھماکہ قرار دے کر دبانے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہ’’ اس وقت اس معاملے کو ممبئی اور دہلی تک لے جایا گیا، جہاں نیشنل میڈیا کے ذریعے کئی حقائق پیش کئے گئے، جس کے بعد یہ کیس اے ٹی ایس کے سپرد ہوا۔‘‘ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ’’لیکن، حکومت نے بعد میں یہ کیس سی بی آئی کے حوالے کر دیا، جس نے معاملے کو انجام تک پہنچانے کے بجائے ملزمین کو بری ہونے کا موقع فراہم کیا۔‘‘
سماجی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اگر مقامی عدالت میں شواہد مسترد کئے گئے ہیں تو سی بی آئی کو اس معاملے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک لے جانا چاہئے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی آگے آنا ہوگا۔یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جاری جدوجہد کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور انصاف کے حصول کیلئے مزید قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے۔
ناندیڑ بم دھماکہ ۲۰۰۶ء
۲۰۰۶ء میں ناندیڑ کے پاٹ بندھارے نگر میں واقع ایک مکان میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ۲؍ لوگوں کی موت ہو گئی تھی یہ دونوں آر ایس ایس سے وابستہ تھے۔ یہ مکان بھی آر ایس ایس کارکن کا تھا۔ یہاں بم بنانے کے واضح ثبوت ملے تھے مگر پولیس عدالت کو ثبوت نہیں پیش کر سکی۔