• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نیٖٹ نتائج : این ٹی اے کا کوئی بھی غلطی تسلیم کرنے سے انکار

Updated: June 10, 2024, 11:09 AM IST | Agency | New Delhi / Chennai

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل سبودھ کمارسنگھ نےکہاکہ نتائج میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی، راہل گاندھی نے طلبہ کو یقین دلا یا کہ وہ پارلیمنٹ میں ان کی آواز بنیں گے۔

Youth Congress workers protesting against NET exam and results. Photo: PTI
یوتھ کانگریس کے کارکنان نیٹ امتحان اور نتائج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر : پی ٹی آئی

 نیٹ امتحان کے نتائج میں ہوئی بے ضابطگی پرہنگامہ مچا ہوا ہے۔۶۷؍ طلبہ کوپہلا رینک ملنے، ایک ہی سینٹر کے ۶؍ طلبہ کے ٹاپ کرنے اور ۱۵۰۰؍ سے زائد طلبہ کو ا ضافی مارکس ملنے کے بعدمختلف ریاستوں میں طلبہ احتجاج کررہے ہیں اور نتائج کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نیٹ کے متنازع نتائج پر اپوزیشن کانگریس اور سماجوادی نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھرنیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے ) کے ڈائریکٹر جنرل سبودھ کمار سنگھ نے ایک بیان میں کوئی بھی غلطی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہےکہ تمام چیزوں کا باضابطہ تجزیہ کرنے کے بعد نتائج ظاہر کئے گئے ہیں اور امتحانات بھی پورے شفاف طریقے سے منعقد کئے گئے۔۴۷۵۰؍ مراکز میں سے گڑبڑی کے معاملات صرف ۶؍ مراکز میں سامنےآئے ہیں اور۲۴؍ لاکھ طلبہ میں سے صرف ۱۵۶۳؍ طلبہ کو یہ مسئلہ درپیش ہوا ہے۔ ڈائریکٹر کاکہناہےکہ ملک بھر میں منعقد ہوئے ان امتحانات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیاگیا ہے، کوئی پیپر لیک نہیں ہوا ہے۔
  اُدھر اس معاملے میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ نریندر مودی نے ابھی حلف بھی نہیں لیا ہے اور نیٹ کے امتحان میں ہوئی دھاندلی نے۲۴؍ لاکھ سے زیادہ طلباء اور ان کے خاندانوں کو برباد کر دیا ہے۔ ایک ہی امتحانی مرکز کے۶؍ طلبہ زیادہ سے زیادہ نمبروں کے ساتھ ٹاپ کرجاتے ہیں، کتنوں کو ایسے نمبرات حاصل ہوتے ہیں جو تکنیکی طور پر ممکن ہی نہیں ہیں لیکن حکومت مسلسل پیپر لیک کے امکان کو مسترد کر رہی ہے۔راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ایجوکیشن مافیا اور سرکاری مشینری کی ملی بھگت سے چل رہے اس ’پیپر لیک انڈسٹری‘ سے نمٹنے کیلئے ہی کانگریس نے ایک مضبوط پلان بنایا تھا۔ ہم نے اپنے منشور میں قانون بنا کر طلبہ کو ’پیپر لیک سے نجات‘ دلانے کا عہد لیا تھا۔ کانگریس لیڈر نے مزید کہا ہے کہ آج میں ملک کے تمام طلباء کو یقین دلاتا ہوں کہ میں پارلیمنٹ میں آپ کی آواز بنوں گا اور آپ کے مستقبل سے جڑے مسائل کو مضبوطی سے اٹھاؤں گا۔ نوجوانوں نے ’انڈیا‘ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، ’انڈیا‘ ان کی آواز کو دبنے نہیں دے گا۔

اسٹالن نے این ای ای ٹی پر پابندی کا مطالبہ کیا
 تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے صدر ایم کے اسٹالن نے اتوار کے روز بڑے پیمانے پر تضادات اور حالیہ ملک گیر احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے یوجی میڈیکل کورسیز میں داخلے کے لیے این ای ای ٹی کے امتحان پر پابندی لگانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ۔یہاں ایک بیان میں اسٹالن نے ڈی ایم کے حکومت کی طرف سے قائم کی گئی جسٹس اے کے راجن کمیٹی کی رپورٹ بھی شیئر کی جس نے این ای ای ٹی پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے کیونکہ یہ غریب مخالف اور سماجی انصاف کے خلاف ہے۔
  اسٹالن نے کہا کہ ڈی ایم کے پہلی پارٹی تھی جس نے این ای ای ٹی کے خطرات کو محسوس کیا اور اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ اسٹالن نے تمل ناڈو اسمبلی میں این ای ای ٹی سے استثنیٰ دینے کیلئے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کا بھی ذکر کیا جو اب گورنر کی جانب سے غیر معمولی تاخیر کے بعد صدر کی منظوری کا انتظار کر رہی ہے۔
  اسٹالن نے کہا ’’ اقتدار میں آنے کے بعد ہم نے این ای ای ٹی پر مبنی داخلہ کے عمل کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے جسٹس اے کے راجن کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی۔کمیٹی کی رپورٹ وسیع اعداد و شمار کے تجزیہ اور طلباء، والدین اور عوام سے موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر شائع کی گئی تھی اور اسے مختلف ریاستی حکومتوں کو بھی سونپا گیا تھا تاکہ نیٹ کی غریب مخالف اور سماجی انصاف مخالف نوعیت کو بے نقاب کیا جا سکے۔
  اسٹالن نے کہا کہ رپورٹ کی سفارشات کی بنیاد پر این ای ای ٹی سے استثنیٰ کا مطالبہ کرنے والا بل تمل ناڈو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اسٹالن نے کہا ’’ چونکہ بڑے پیمانے پر تضادات کی وجہ سے این ای ای ٹی کی ملک گیر مخالفت میں اضافہ ہوا ہے، ہم جسٹس اے کے راجن کمیٹی کی رپورٹ کو انگریزی اور تمام بڑی ہندوستانی زبانوں میں شائع کر رہے ہیں تاکہ ہر کوئی این ای ای ٹی کے برے اثرات کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK