سابق ریاستی وزیر جاوید خان کے فرزند اس علاقے کی نمائندگی کرکے اپنےوالد کی وراثت کو آگے بڑھانے کے متمنی۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 9:56 AM IST | Mumbai
سابق ریاستی وزیر جاوید خان کے فرزند اس علاقے کی نمائندگی کرکے اپنےوالد کی وراثت کو آگے بڑھانے کے متمنی۔
عروس البلاد میں انتخابی گہما گہمی تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ یہاں کئی حلقے ایسے ہیں جن میں اس گہما گہمی کو بہت آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک حلقہ نمبر ۱۷۱؍ ہے جو مانخورد شیواجی نگر کے نام سے مشہور ہے۔ کوئی پوچھے کہ ایسی گہما گہمی تو ہر الیکشن میں ہوتی ہے اور مانخورد شیواجی نگر میں بھی ہوتی ہے، اس بار نیا کیا ہے؟ تو اس کے ممکنہ جوابات میں سے ایک یہ ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ یہاں سے ایک ایسا اُمیدوار قسمت آزما رہا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، تعلیمی ادارے چلانے کا تجربہ رکھتا ہے، چند تعلیمی اداروں کی روح رواں ہے، مسائل کے سائنٹفک حل تک پہنچ سکتا ہے، جذباتیت سے دور ہے اور سیاست سے اس کی بالواسطہ وابستگی خاصی پرانی ہے کیونکہ ان کے والد پروفیسر جاوید خان نہ صرف یہ کہ اس حلقے سے عوام کی نمائندگی کرتے رہے بلکہ وزیر رہے۔ اُن کا شمار ریاست کے سینئر اور قابل احترام سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ جس نوجوان کی ہم بات کررہے ہیں وہ وسیم جاوید ہیں اور آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔ ان سے ہونے والی ہماری گفتگو کے اقتباسات:
سیاست سے آپ کی براہ راست وابستگی نہیں رہی، آپ کے والد البتہ رکن اسمبلی اور وزیر رہے۔ آپ نے اب تک نہ تو سیاست میں کریئر بنانے کے بارے میں سوچا نہ ہی الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اس لئے یہ سوال ہماری نظر میں اہم ہے کہ آپ کے پرچۂ نامزدگی بھرنے کا کیا سبب ہے؟
اس کی وجہ میرا یہ خیال ہے کہ سیاست میں نئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی حلقے خواہ وہ میونسپل کارپوریشن کا ہو یا اسمبلی کا یا لوک سبھا کا، جب تک نئے لوگ نہیں آئینگے اور دوران تعلیم اُنہو ںنے جو کچھ بھی سیکھا اور جس طرح دُنیا کو سمجھا، اُسے زمینی سطح پر اُتارنے کی کوشش نہیں کرینگے تب تک سماج میں حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ آپ جانتے ہیں کہ مَیں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی، مَیں نے واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرس کیا ہے۔ اس سے قبل ممبئی یونیورسٹی سے بیچلر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرچکا تھا۔ اس کے علاہ سماجی خدمت کا جذبہ رہا۔ مانخورد شیواجی نگر کے بہت سے شہری جانتے ہیں کہ مَیں نے یہاں کئی سماجی اُمور میں حصہ لیا ہے مثلاً روزگار میلہ، میڈیکل کیمپ، کورونا کے دور میں کووڈ انفارمیشن سینٹر کا قیام اور دیگر۔ ان سرگرمیوں کے دوران بار بار یہ احساس ہوا کہ اگر عوامی نمائندہ کی حیثیت سے یعنی باقاعدہ الیکشن جیت کر خود کو پیش کیا جائے تو اس کے زیادہ اچھے نتائج برآمد ہوں گے، اس لئے مَیں نے اِس بار پرچہ بھر ہی دیا۔
جہاں تک ہماری معلومات ہے، آپ تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ادارہ کی ذمہ داری، پھر سماجی اور سیاسی سرگرمیاں اور اب آپ کا یہ فیصلہ کہ عوامی نمائندگی کیلئے الیکشن لڑنا چاہئے، کیا اتنا سب ممکن ہوسکتا ہے؟
مشہور مثل ہے کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ آدمی چاہے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ ہمارا ادارہ اورینٹل ایجوکیشن سوسائٹی ہے، جس کا مَیں جنرل سکریٹری ہوں۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس ادارہ کے تحت ممبئی اور نوی ممبئی میں کئی تعلیمی ادارے جاری ہیں اور ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ ان اداروں میں کم و بیش دس ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ بہت سے لوگ ایک ادارے کی سرگرمیوں ہی میں تھک جاتے ہیں، وہ آگے نہیں بڑھتے، ہم نے ادارے بنائے، ادارے بڑھائے، اس کے علاوہ مَیں نے سماجی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں جن میں سے چند کا ذکر اوپر آچکا ہے او راب مَیں الیکشن لڑرہا ہوں تو یہ سب انسان کے Passionپر منحصر ہوتا ہے۔ کامیابی کی راہ بھی وہیں سے نکلتی ہے۔ اس لئے مَیں پُرعزم ہوں۔
آپ کے والد (پروفیسر جاوید خان) کے بارے میں اہل مہاراشٹر جانتے ہیں مگر آپ کی نظر میں وہ کون سے کام ہیں جو آپ کے والد نے گوونڈی میں کروائے؟
والد صاحب اِس حلقے سے دو مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، اُس زمانے میں گوونڈی کے زیادہ تر مکان کچے تھے۔ وہ غیر قانونی بھی تھے۔ والد صاحب نے اُنہیں قانونی کروایا اور کچے مکانوں کو پکا بنانے کا کام کیا۔ اُردو، انگلش، مراٹھی، ہندی اسکولوں کو منظوری دلوانے کے معاملے میں تو والد صاحب کی شہرت دور دور تک تھی۔ اس علاقے کے لوگوں کے راشن کارڈ، ووٹر لسٹ میں نام، پینے کے پانی کی لائن، گندہ پانی کی نکاسی کا نظام، ایسے پچاسوں کام والد صاحب نے کروائے اور جو لوگ جانتے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ اُنہو ںنے اُس دور میں کون کون سے کام ہوتے دیکھے۔ مَیں نے اُن کاموں کے تعلق سے اُنہیں گھر پر فکرمند دیکھا ہے۔
کیا والد صاحب اپنے حلقے کے کاموں کی تفصیل سے آپ لوگوں کو بھی آگاہ کرتے تھے؟
جی ہاں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے فون آتے تھے اور ہم لوگوں کو بعض باتیں ایسے ہی فون پر گفتگو کی وجہ سے معلوم ہوجاتی تھیں۔ گھر پر اکثر اوقات وہ اپنے حلقے کی باتیں کرتے تھے۔ وہ اس حلقے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے اور اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اُن کی اپنی نوٹس ہوتی تھیں علاقہ کے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق۔
آخر میں ہم دو سوال خاص طور پر کرنا چاہیں گے۔ ایک یہ کہ آپ کی نظر میں مانخورد شیواجی نگر حلقے کے کیا مسائل ہیں اور دوسرا سوال یہ کہ آپ انہیں کس طرح حل کرنا چاہیں گے؟
مسائل تو کئی ہیں مگر چند کا ذکر کرنا چاہوں تو کہوں گا کہ منشیات (ڈرگس) کا مسئلہ بڑھ رہا ہے جس سے نئی نسل کو بڑا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ دوسرا ہے جرائم۔ گوونڈی میں کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جو اِس علاقے کے نام پر دھبہ ہیں۔ اس کے علاوہ جیسی ترقی بہت سے دیگر حلقوں میں ہوئی ہے وہ گوونڈی کا بھی حق ہے اور اسے یہ حق ملنا چاہئے۔تیسری بات جو کہنا چاہوں گا وہ ہے تعلیم کا فروغ۔
انہیں آپ حل کیسے کرنا چاہیں گے؟
حل کی طرف آنے سے قبل ایک بات اور بتا دوں کہ صحت عامہ کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ ڈمپنگ گراؤنڈ کی وجہ سے زبردست فضائی آلودگی جس میں لگاتار اضافہ ہوتا ہے ایس ایم ایس کمپنی کی وجہ سے۔ اب آئیے حل کی طرف تو حل ہی کے نقطۂ نظر سے مَیں نے عوامی نمائندگی کا بیڑا اُٹھایا ہے تاکہ عوام کی آواز اور حلقے کے مسائل کو ایوان میں اُٹھاؤں اور حکومت کی مدد سے وہ تمام کام کروا سکوں جو اس حلقے کی ترقی کیلئے ضروری ہیں۔ یہاں کے ووٹرس چاہیں گے کہ وہ تبدیلی کیلئے ووٹ دیں اور مجھے ان کے تعاون اور حمایت کی قوی اُمید ہے۔