Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

بھگدڑ کے بعد افراتفری، ہاہا کار، آہ وبکا اور اپنوں کی تلاش

Updated: February 17, 2025, 11:47 AM IST | Agency | New Delhi

۱۸؍ اموات کی تصدیق، متعدد لاپتہ، کوئی اپنی اہلیہ کی تلاش میں  در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے تو کوئی بھائی اور بچوں کو ڈھونڈ رہا ہے، اسپتالوں پر تعاون نہ کرنے کا الزام۔

People digging their holes in the stampede. Kumbh`s disorder has destroyed many families. Photo: PTI
بھگدڑ میںاپنے چہیتوں کو کھودینےوالے افراد۔ کمبھ کی بد نظمی نے متعدد خاندانوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی

دہلی ریلوے اسٹیشن پر سنیچر کی رات مچنے والی بھگدڑ کے بعد اتوار کو اسپتالوں میں افراتفری، ہاہاکار اور آہ و بکا کا عالم رہا۔ کافی پس وپیش کے بعد انتظامیہ نے دیررات پہلے ۱۵؍ پھر ۱۸؍ افراد کے ہلا ک ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم متعدد افراد اتوار کو دن بھر اپنے اعزہ کی تصویریں  لئے اسپتالوں   کے چکر کاٹتے رہےجس سے اندیشہ ہے کہ کچھ لوگ لاپتہ ہیں۔ حادثے میں ۱۸؍ ہلاکتوں  کے ساتھ ہی درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے حادثہ کیلئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ریلوے وزیر اشوینی ویشنو کےا ستعفیٰ کی مانگ کی ہے۔ 
ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ کیسے مچ گئی؟
  سنیچر کو الہ آباد میں  جاری مہا کمبھ میں  شرکت کیلئے جانےوالوں  کی غیر معمولی بھیڑ دہلی ریلوے اسٹیشن پر اکٹھا تھی۔ انتظامیہ نے اس بھیڑ کو منضبط کرنے کیلئے کوئی پیشگی اقدام نہیں کیا۔ البتہ ریلوے حکام کا کہنا ہےکہ مسافر ’’ پریاگ راج ایکسپریس اور پریاگ راج اسپیشل‘‘ کے درمیان کنفیوژن کا شکار ہوگئے جو حادثے کا سبب بنا۔ وزارت ریل کے مطابق ’پریاگ راج اسپیشل ‘کے پلیٹ فارم ۱۲؍ پر آنے کا اعلان ہوا جس سے پلیٹ فارم ۱۴؍ پر پریاگ راج ایکسپریس کے انتظار میں کھڑے مسافر کنفیوژن کا شکار ہوگئے ا ور ہڑبڑاہٹ میں پلیٹ فارم نمبر ۱۲؍ کی طرف بھاگنے لگے جس کی وجہ سے پُل پر بھگدڑ مچ گئی اور متعدد افراد کچل گئے۔ ان میں  سے ۱۸؍ کی موت ہوگئی۔ 
 ہاہاکار، آہ وبکااو راپنوں کی تلاش
 اس بھگدڑ میں متعدد افراد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔ گپتیشور یادو اپنی ۵۰؍ سالہ اہلیہ تارادیوی کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں  کھا رہے ہیں۔ موبائل اسکرین پر وہ اپنی بیوی کی تصویر دکھاتے ہیں تو ان کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔ ۵۲؍ سالہ گپتیشور منہ ہی منہ میں  بڑبڑاتے ہوئے کہتے ہیں  کہ ’’بھیڑ میں  وہ مجھ سے بچھڑ گئی۔ میں  بہت دیر تک اس کا انتظار کرتا رہا مگر وہ لوٹی ہی نہیں۔ ‘‘ بھگدڑ کے وقت کی بے بسی کو بیان کرتے ہوئے انہوں  نے بتایا کہ ’’اُس وقت ممکن ہی نہیں  تھا کہ آپ اپنی طاقت سے چل سکیں، بھیڑ مجھے دھکیلتے ہوئے لے جارہی تھی۔ ہر کوئی بس اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ ‘‘ گپتیشور رات بھر اسپتالوں   کے مردہ خانوں   میں  اور دن بھر زخمیوں  میں  تارا کی تلاش کرتے رہے مگر اس خبر کے لکھے جانے تک انہیں  ڈھونڈ پانے میں  کامیاب نہیں ہوسکے۔ 
 وہ دردناک منظر
 ۴۰؍ سالہ دگمبھرمنڈل جو ۱۲؍ سال سے پلیٹ فارم نمبر ۱۴؍ پر گیتا پریس کا بک اسٹال چلا رہے ہیں، نے بتایا کہ ’’بہت زیادہ بھیڑ تھی، تبھی اچانک یکے بعد دیگرے کئی ٹرینوں  کے پلیٹ فارم تبدیل ہونے کے اعلان ہوئے اور پھر یہ سب شروع ہوگیا۔ ‘‘دگمبھرمنڈل کے مطابق’’لوگ گھبراگئے کہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔ انہیں  سمجھ میں   نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں  کیوں  کہ بھیڑ کی وجہ سے پُل کی سیڑھیاں  پہلے ہی کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں۔ پھر بھی چند لمحوں  میں  لوگ سیڑھیاں  چڑھنے لگے۔ اتنی بھیڑ تھی کہ ہم جیسے لوگ ہل بھی نہیں  سکتے تھے، میں  مدد کرنا چاہتا تھا مگر بے بسی سے دیکھ رہاتھا۔ ‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ’’ کچھ دیر بعد ریلوے انتظامیہ کے لوگ پہنچے مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، اب صرف لاشیں  ہٹانے کا کام رہ گیاتھا۔ ‘‘ ۴۰؍ سالہ عینی شاہد کے مطابق’’میں  نے سیڑھیوں  سے لاشیں اکٹھا کرنے کا منظر دیکھا ہے، وہ برداشت کے باہر تھا، اسی لئے دکان بند کرنے کے بعد میں   سیڑھیوں  پر نہیں چڑھا بلکہ پٹریاں  پار کرکے گیا۔ ‘‘
اسپتالوں میں افراتفری
 اتوار کو صبح سے ہی اُن اسپتالوں  میں  افراتفری کا عالم رہا جہاں  مہلوکین اور زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے۔ لوگ دیوانہ وار اپنے ان چہیتوں  کو ڈھونڈ رہے تھے جو بھگدڑ میں  بچھڑنے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے شکایت کی کہ اسپتال زخمیوں  میں  انہیں ان کے اعزہ کو تلاش کرنے کی اجازت نہیں  دے رہے ہیں۔ 
  بھگدڑ میں زخمی ہونے و الوں  کو لوک نائک جے پرکاش نارائن اسپتال اور لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں  منتقل کیا گیا ہے۔ اسپتال انتظامیہ اپنے رشتہ داروں  کی تلاش میں پہنچنے والوں  کو زیر علاج افراد کی فہرست دکھاتے ہیں اوراگر اس میں  نام نہ ہو توانہیں  بھگا دیتے ہیں۔ 

پنے چہیتوں  کی تلاش میں  دردر کی ٹھوکریں  کھانے پر مجبور افراد کا الزام ہے کہ وہ گمشدگی کی رپورٹ بھی درج نہیں  کراپارہے ہیں۔ جے پرکاش نارائن اسپتال کے باہر بھولا شاہ نے اپنی اہلیہ مینا کی تصویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ بھگدڑ کے بعد سے یہ لاپتہ ہے۔ بھولا نے بتایا کہ ’’وہ کل شام سے لاپتہ ہے۔ وہ کمبھ میں   جانے کیلئے ریلوے اسٹیشن پہنچی تھی، اس کے پاس کوئی ٹکٹ نہیں تھا۔ وہ چار پانچ لوگوں  کے ساتھ تھی، ان میں  سے کوئی نہیں  مل رہاہے، ان کے فون بھی نہیں  لگ رہے ہیں۔ ‘‘ واضح رہے کہ کمبھ جانے کیلئے ریلوے اسٹیشن پہنچنے والوں  میں   بڑی تعداد کے پاس یا تو کنفرم ٹکٹ نہیں   تھے یا پھر وہ بلا ٹکٹ ٹرین میں  سوار ہوکر جرمانہ بھر کے الہ آباد پہنچنے کے ارادہ سے وہاں  موجود تھے۔ غیر مصدقہ رپورٹوں  کے مطابق نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر سنیچر کی رات الہ آباد کیلئے ۱۵۰۰؍ سے زائد جنرل ٹکٹ جاری کئے گئے۔ بھولا شاہ کے مطابق’’اسپتال والوں  کا کہنا ہے کہ بھگدڑ کے مہلوکین کی کوئی لاش نہیں  بچی، تمام لاشیں ان کے اعزہ لے گئے۔ ‘‘ معظم بھی جے پرکاش نارائن اسپتال میں  اپنے بھائی ندیم کو تلاش کررہے تھے۔ انہوں   نےبتایاکہ’’وہ سوتنتر سینانی ایکسپریس سے دربھنگہ واپس جارہاتھا۔ اس کا کوئی پتہ نہیں  چل رہاہے، اس کے پاس کوئی موبائل بھی نہیں  ہے۔ ‘‘ انہو ں  نے بتایاکہ ’’اسپتال عملہ کا کہنا ہے کہ بھگدڑ کے مہلوکین کی کوئی لاش نہیں بچی جبکہ زخمیوں  میں  وہ ندیم کو تلاش نہیں کرنے دے رہے ہیں۔ ‘‘ حادثہ پرریلوے انتظامیہ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب بھیڑ بڑھنے کا خدشہ تھا تو ضروری انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ تحقیقاتی ٹیم نے ریلوے افسران سے یہ بھی پوچھا کہ حادثے کے وقت آر پی ایف کے اہلکاروں کی موجودگی کم کیوں تھی؟ تاہم، شمالی ریلوے کے پرنسپل چیف کمرشل منیجر نر سنگھ دیو نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بہر حال ریلوے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ سنیچرکی رات پلیٹ فارم۱۴؍ پر پریاگ راج ایکسپریس کیلئے جمع ہونے والی بھیڑ کو جب مہا کمبھ کیلئے نئی خصوصی ٹرین چلانے کی اطلاع ملی تو جلد بازی میں نقل وحرکت شروع ہونے سے بھگدڑ مچ گئی تھی۔ ریلوے ذرائع کے مطابق اس کے بعد ۴؍ خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں جس سے حالات قابو میں آئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK