راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئر مین نے نوٹس رَد کرتے ہوئے کہاکہ’’ یہ نوٹس نہایت ناقص اور آئینی عہدے کو نیچا دکھانے کی کوشش تھا ۔‘‘نوٹس میں نام کا املا بھی غلط ہونے کا دعویٰ کیا۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 4:32 PM IST | Agency | New Delhi
راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئر مین نے نوٹس رَد کرتے ہوئے کہاکہ’’ یہ نوٹس نہایت ناقص اور آئینی عہدے کو نیچا دکھانے کی کوشش تھا ۔‘‘نوٹس میں نام کا املا بھی غلط ہونے کا دعویٰ کیا۔
راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے نائب صدر جمہوریہ کے خلاف اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کے نوٹس کو ناقص اور جان بوجھ کر ملک کے دوسرے سب سے بڑے آئینی عہدے کو چھوٹا اور نیچا دکھانے کی جرأت قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کرنے کا اعلان کیاہے اور کہا ہے کہ اگر مناسب ہو گا تو اس حوالے سے ۲۴؍ دسمبر کے بعد تفصیلی آرڈر دیا جائے گا۔ راجیہ سبھا میں جمعرات کو لنچ کے وقفے کے بعد پیش کئےگئے عبوری حکم میں ہری ونش نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۶۷؍ بی کے تحت نائب صدر کو ہٹائے جانے والی کوئی بھی تجویز پیش کرنے کے لئے کم از کم ۱۴؍ دن کی پیشگی اطلاع دینا لازمی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ تجویز جس پر اپوزیشن کے ۶۰؍ اراکین کے دستخط ہیں ۱۰؍دسمبر کو دی گئی تھی۔ اس طرح اس پر کوئی بھی آرڈر ۲۴؍دسمبر کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ تب تک پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہو جائے گاکیوں کہ یہ سرمائی اجلاس ۲۰؍ دسمبر تک ہی جاری رہے گا۔
ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ اپوزیشن کی اس تجویز پر ’’اگر مناسب ہوا تو تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔‘‘ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپوزیشن اراکین کی طرف سے متعلقہ خط کسی مخصوص اتھاریٹی کو نہیں لکھا گیا تھا اور اس کے بعد اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس نے اس کی تشہیر کی تھی۔ ڈپٹی چیئرمین نے اپنے عبوری آرڈر میں کہا کہ تحریک لانے والوں کو معلوم تھا کہ اس اجلاس کے دوران یہ تحریک غور کے لئے نہیں پیش کی جا سکتی۔ اس کے باوجود اسے ملک کے دوسرے اعلیٰ ترین آئینی عہدے کے خلاف بیانیہ پھیلانے کے واحد مقصد کے ساتھ لایا گیا۔عبوری حکم نامے کے مطابق پورے ذرائع ابلاغ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نوٹس انتہائی اناڑی پن کا نمونہ تھاساتھ ہی لاپروائی اور سنگین خامیوں کا پلندہ بھی تھا ۔ قرارداد میں مکتوب الیہ کا نام تک نہیں ہے، قرارداد کا متن غائب ہے، موجودہ نائب صدر کا نام پوری پٹیشن میں درست نہیں لکھا گیا ہے اور دعویٰ کردہ دستاویزات اور ویڈیوز کو پٹیشن کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے اور نہ اس میں دیگر کوئی ثبوت دیا گیا ہے۔ نوٹس میں دیا گیا تصدیق نامہ غیر متعلقہ میڈیا رپورٹس کے لنکس پر مبنی ہے۔
ڈپٹی چیئرمین نے اسے پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ کی ساکھ کے لئے تشویشناک قرار دیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگست ۲۰۲۲ء میں موجودہ نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اس میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ جھوٹے دعوئوں سے بھرا ہوا ہے جس کا مقصد انہیں بدنام کرنا ہے۔اس حکم میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر کے خلاف میڈیا مہم چلائی جائے گی اور اس سلسلے میں ۱۲؍دسمبر کو کانگریس، اہم اپوزیشن پارٹی کے لیڈر اور چیف وہپ کی ٹیلی ویژن پریس کانفرنس کا بھی ذکر کیا گیا ہےلیکن اسے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نوٹس اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے آرٹیکل ۶۷؍ بی کے تحت راجیہ سبھا سیکریٹری پی سی مودی کو سونپا تھا۔ ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں راجیہ سبھا چیئرمین کے خلاف کبھی تحریک مواخذہ نہیں آیا تھا لیکن اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے بہت مجبوری میں یہ نوٹس دینے کی بات کہی تھی۔ اس نوٹس پر اپوزیشن کی طرف سے ۶۰؍ اراکین پارلیمنٹ نے دستخط کئے تھے۔
واضح رہے کہ دھنکر کے خلاف جب یہ تحریک پیش کی گئی تھی تو انہوں نے نہایت غصہ اور جذباتی انداز میں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو کسان کا بیٹا قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میں کسان کا بیٹا ہوں اسی لئے مجھے نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اپوزیشن والوں کی من مانی میں روکتا ہوں اسی لئے وہ مجھے یہاں سے ہٹانے کی سازش کررہے ہیں۔ اس پر اپوزیشن نے کافی احتجاج بھی کیا تھا اور دھنکر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں کیوں کہ ان سے قبل کسی بھی نائب صدر نے اتنے کھلے پیمانے پرسرکار کی چاپلوسی نہیں کی اور نہ کسی نے اس حد تک سرکار کا دفاع کیا ہے۔
اس بارے میں اپوزیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جو نوٹس دیا گیا تھا اس پر سرکار کی جانب سے عمل نہیں ہونے والا تھا کیوں کہ ہمیں بھی معلوم تھا کہ حکومت اپنی کھال بچانے کی کوشش کرے گی۔ یہ بھی معلوم تھا کہ دھنکرکو بچالیا جائے گا لیکن یہ انہیں ایک طرح سے وارننگ دینے کے لئے تھا کہ وہ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اپوزیشن کے اراکین کو بھی بولنے کا موقع دیں ورنہ مستقبل میںبھی ان کے خلاف اسی طرح کی تحریک لائی جاسکتی ہے تاکہ ان کے ہوش ٹھکانے لگائے جائیں۔