• Mon, 24 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گورکھپور میں قدیم مسجد کی جگہ بنائی گئی مسجد کو نوٹس

Updated: February 24, 2025, 11:53 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Gorakhpur

پہلے راتوں رات مسجد شہید کر دی گئی، پھر غلطی مان کر زمین الاٹ کی گئی، سال بھر میں مسجد کی نئی عمارت بن گئی تو اب نقشہ پاس نہ ہونے کا بہانا بنا کر شہید کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

The new 4-storey building of Masjid Abu Hurairah in Gorakhpur has been constructed in less than a year. Photo: INN
گورکھپور میں مسجد ابوہریرہ کی نئی ۴؍ منزلہ عمارت سال بھر سے بھی کم کے عرصہ میں تعمیر ہوئی ہے۔ تصویر: آئی این این

اتر پردیش میں  یکے بعد دیگرے مساجد کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں  لے رہاہے۔ تازہ معاملہ گورکھپور کے میواتی پورکی  نوتعمیر شدہ ابوہریرہ مسجد کا ہے جس پر ۱۵؍ دنوں  میں  بلڈوزر چلادینےکا نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف عوام میں  شدید برہمی ہے کیوں  کہ یہ مسجد گورکھپور انتظامیہ کے ذریعہ دھاندلی کرتے ہوئے دہائیوں  پرانی مسجد شہیدکردینے کے بعد غلطی تسلیم کرکے الاٹ کی گئی زمین پر بنی ہے۔ اب مسجد کا نقشہ پاس نہ ہونے کا بہانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ قانوناً ۱۰۰؍ مربع میٹر یا ایک ہزار اسکوائر فٹ سے کم قطعہ اراضی پر تعمیر کیلئے نقشہ پاس کروانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ 
۱۵؍ فروری کو نوٹس دیاگیا
 ابوہریرہ مسجد کی دیوار پر۱۵؍ فروری کو نوٹس چسپاں  کیا گیا ہے نیز متولی شعیب احمد کو بھی اس کی ایک نقل دی گئی ہے۔ نوٹس میں  کہا گیا ہے کہ عمارت کا نقشہ پاس نہیں  کرایاگیا اس لئے یہ غیر قانونی ہے۔ گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (جی ڈی اے) نے مسجد کےمتولی شعیب احمد کو   ۱۵؍ دن کے اندر اندر خود ہی مسجد کو شہید کردینے کی ہدایت دی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ بصورت دیگر جی ڈی اے اس پر بلڈوزر چلائےگا اور خرچ مسجد انتظامیہ سے وصول کیا جائےگا۔ 
  شعیب احمد نے مسجد کو بچانے کیلئے کمشنر کے سامنے اپیل دائر کردی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مسجد ایک سال سے بھی کم عرصہ میں انتہائی جوش وخروش کے ساتھ تعمیر ہوئی ہے۔ 
قدیم مسجد کو راتوں رات شہید کیاگیا
  یاد رہے کہ میواتی پور میں میونسپل کارپریشن نے ۲۵؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو راتوں رات ابوہریرہ مسجد شہید کردی تھی۔ چونکہ مسجد قانونی تھی اور ۱۹۶۷ء کا ایک عدالتی حکم مسجد کے حق میں موجود تھا اس لئے جب مقامی باشندوں نے میونسپل کارپوریشن کی اس کارروائی کی مخالفت کی تو میونسپل کارپوریشن نے مسجدفریق کے ساتھ سمجھوتہ کرکے مسجد کی تعمیر کیلئے مذکورہ اراضی کے جنوب مغربی سرے پر تقریباً ۵۵۰؍ مربع فٹ زمین دے دی۔ 
ا س زمین پر مسجد کی نئی عمارت تعمیر ہوئی۔ شہید کی گئی ابوہریرہ مسجد کے متولی سہیل احمد تھے جن کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا اور اُن کی ذمہ داریاں اب ان کے فرزند شعیب احمد ادا کررہے ہیں۔ 
 مسجد کا ۱۹۶۷ء کا عدالتی ریکارڈ
 شعیب احمد  نے بتایا کہ ایک تنازع کے بعد ۲۶؍ اپریل ۱۹۶۷ء کو سوِل کورٹ نےمسجد ابوہریرہ کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیاتھا تاہم گزشتہ سال (۲۰۲۴ء ) جنوری میں میواتی پور میں   ۱۶؍ مکانات اور۳۱؍ دکانوں  کو شہید کرنے کے ساتھ ہی مقامی انتظامیہ نے مسجد ابوہریرہ کی قطعہ اراضی پر دعویٰ  پیش کیا اور بلڈوزر چلا دیا۔ اس جگہ اب کئی منزلہ پارکنگ لاٹ بنایا جارہاہے۔ شعیب احمد نے بتایا کہ پرانی مسجد راتوں  رات شہید کردی گئی تھی۔ ان کے والد نے جب کارپوریشن سے اس کی شکایت اور تحریری لڑائی لڑی تو کارپوریشن نے اپنی غلطی قبول کی اور ۶؍ میٹنگوں   کے بعد ۲۷؍ فروری۲۰۲۴ء کو مذکورہ قطعہ اراضی کے جنوب مغرب میں  مسجد کیلئے جگہ الاٹ کرنے کا ریزولیوشن پاس کیا۔ شعیب احمد کے مطابق ان کے والد سہیل احمد کی نگرانی میں  ہی چندہ کرکے نئی مسجد کی تعمیر ہوئی جس میں  پابندی سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔ انہوں  نےبتایاکہ گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے نوٹس پر ان کے وکیل جے پرکاش نارائن شری واستو نے کمشنر / چیئرمین کے سامنے اپیل دائر کی ہے جس پر ۱۸؍ فروری کو شنوائی ہونی تھی مگر وہ ٹل کر ۲۵؍ فروری ہوگئی ہے۔ 
نقشہ پاس کروانے کی ضرورت ہی نہیں 
 مسجد کے متولی شعیب احمد نے انقلاب کے استفسار پر بتایا کہ میواتی پور کی شہید کردہ مسجد ابوہریرہ بہت قدیم ہے۔ ایک مقدمہ شیخ منا بنام‌ ادریس اور میونسپل کارپوریشن میں ۱۹۶۷ء کی اس کے حق میں  ڈکری ہے۔ یہی نہیں جس جگہ یہ مسجد واقع ہے اس محلے میں ۲۲؍ تا۲۴؍مکانات تھے اور یہاں دیگر دو مقدمات رام چندر بنام نگر نگم میں بھی علاقے کے مکانوں کو نہ توڑنے کا اسٹے ہے اسی طرح پریتی پردھان اور نظام الدین بنام نگر نگم میں بھی پورے علاقے پراسٹے لگا ہوا ہے اس کے باوجود دھاندلی کرکے ۲۴؍ اور ۲۵؍ جنوری ۲۰۲۴ء کی درمیانی شب میں ‌ ڈھائی بجے مسجد شہید کردی گئی جبکہ انتظامیہ نے یقین دلایا گیا تھا کہ مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ نقشہ سے متعلق انہوں  نے بتایاکہ ’’میرے والد سہیل احمد (مرحوم) جب نقشہ پاس کرانے گئے تو نگر نگم کا جواب تھا کہ۵۔ ۶؍ سو اسکوائر فٹ کیلئے نقشے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘مسجد کے وکیل جے پرکاش نارائن نے بھی وضاحت کی کہ ۱۰۰؍ اسکوائر میٹر قطعہ اراضی پر تعمیر کیلئے قانون کے مطابق نقشہ پاس کروانا ضروری نہیں  ہے۔ 

شعیب احمد نے بتایا کہ ’’اب جبکہ مسجد۴؍ منزلہ تعمیر ہوچکی ہے، ۳؍ منزلوں پر نماز ادا کی جاتی ہے اور ایک منزل پر امام صاحب رہتے ہیں، تو  اسے توڑنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں بھی میں نوٹس کا جواب دینے کے لئے۱۳؍ فروری۲۰۲۵ء کو نگر نگم گیا تھا مگر آفیسر سے ملاقات نہیں ہوئی اور حیرت انگیز طور پر ایک دن بعد مسجد شہید کرنے کا نوٹس دے دیا گیا۔‘‘گھوش کمپنی چوراہے کے پاس واقع اس مسجد   کے خلاف انتظامیہ کے ظالمانہ  رویے کے خلاف کانگریس کے ایک وفد نے زونل کمشنر کی غیر موجودگی میں جوڈیشل کمشنررام آشرے سے ملاقات کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔اس حوالے سے میمورنڈم پیش کر تے ہوئے کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ کے سلسلے میں سنجید ہ رخ اختیار کیا جانا چاہئے۔انہدامی کارروائی سے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے۔   جوڈیشل کمشنررام آشرے سے بات چیت میںاترپردیش کانگریس کے نائب صدروشووجے سنگھ نے کہا کہ ایک ہزار مربع فٹ سے کم اراضی پر تعمیرات کیلئے نقشے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن اس کی خلاف ورزی کے نام پرجی ڈی اے مذہبی جذبات بھڑکا نے کی کوشش کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK