ساتھ ہی مرکز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ، ۶؍ ہفتوں میں جواب طلب ،متعدد عرضی گزاروں نے نئے قانون کی کئی شقوںپر اعتراض کیا ہے،جمعیۃعلماء ہند نے بھی عرضی داخل کی
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 12:00 AM IST | Dehradun
ساتھ ہی مرکز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ، ۶؍ ہفتوں میں جواب طلب ،متعدد عرضی گزاروں نے نئے قانون کی کئی شقوںپر اعتراض کیا ہے،جمعیۃعلماء ہند نے بھی عرضی داخل کی
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست کی بی جے پی حکومت کی طرف سے حال ہی میں نافذ کردہ یکساں سول کوڈ (یو سی سی) اتراکھنڈ۲۰۲۴ء کو چیلنج کرنے والی عرضی پرمرکز اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کردیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی نریندر اور جسٹس آشیش نیتھانی کی ڈویژن بنچ نے ۶؍ ہفتوں میں مرکز اور ریاستی حکومت دونوں سے جواب طلب کیا ہے۔
عرضی گزاروں کی دلیل
عدالت میں عرضی گزار الماس الدین صدیقی اور اکرام نے یکساںسول کوڈ کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ اس قانون سے ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۴،۱۹،۲۱،اور۲۵؍ کے تحت حاصل مسلمانوں اور دیگر شہریوں کے بنیادی حقوق اور اسلام کے لازمی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عدالت نے مختلف بنیادوں پریو سی سی کو چیلنج کرنے والی دو دیگر درخواستوں کو بھی مذکورہ درخواست سے منسلک کرتے ہوئے ۶؍ ہفتوں کے بعد اس معاملہ کی سماعت طے کردی ہے۔
اتراکھنڈ کا یو سی سی کیا ہے ؟
واضح رہے کہ اتراکھنڈ حکومت نےاسمبلی سے اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) بل پاس کرنے کے تقریباً ایک سال بعدگزشتہ ماہ ۲۷؍جنوری کو اسے نافذ کردیاہے جس کے بعد یوسی سی نافذ کرنے والی یہ ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ یہ بل کافی متنازع ہے اور اس مخالفت اس کے اعلان سے ہی شروع ہو گئی تھی ۔ اس میں کئی شقیں ایسی ہیں جو متعدد حقوق سے متصادم ہیں اور ان پر شدید اعتراض ہو رہا ہے۔
وکلاء کے دلائل
درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ کارتکیہ ہری گپتا نے ہائی کورٹ کے سامنے دلیل دی کہ قرآن مجید میں بیان کردہ قوانین پر ہر مسلمان کے لئے عمل کرنا لازمی ہے جبکہ یو سی سی قرآن کریم کے بیان کردہ قوانین کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ اتراکھنڈ کا یو سی سی قانون ہندوستان کے آئین کی دفعہ۲۴۵؍ کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ریاستی قانون ہے۔اس کے ساتھ ہی اس قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں میں لیو اِن ریلیشن شپ کے لازمی رجسٹریشن اور رجسٹریشن نہ ہونے کی صورت میں سزاکے التزام کو بھی چیلنج کیا گیاہے۔ ان درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ اس سے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس کی ضمانت آئین ہند کے آرٹیکل۲۱ ؍کے تحت دی گئی ہے۔اس معاملہ میں بھیم تال کے رہائشی سریش سنگھ نیگی اور آروشی گپتا نے بھی عرضی داخل کی ہے۔
جمعیۃ علماء نے بھی عرضی داخل کی
اترا کھنڈ کے اس متنازع سول کوڈکے نفاذ کے خلاف جمعیۃ علماءہند نےبھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔ صدر جمعیۃ علماء مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پرریاستی جمعیۃ علماء یونٹ نے نینی تال ہائی کورٹ میںعرضی دائرکی ہے۔اس اہم مقدمہ کی پیروی سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کریں گے۔جمعیۃ پہلے اس معاملہ میں سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی تھی،تاہم وکلاء کے مشورے کے بعد پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔